ماں
ماں
نور اللہ نور
شاذیہ کالج کے گارڈن میں تنہائی میں اپنے آپ سے سرگوشی کر رہی تھی نہ جانے وہ کیا گفتگو کر رہی تھی نہ جانے کن احساسات نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا وہ روز کالج کے پارک میں عقبی حصے میں روتے رہتی اور اس کے گلاب جیسے سرخ رخسار پر آنسوؤں کے قطرے موتی نما ٹپکتے رہتے تھے.
وہ بلا کی ذہین اور کمال کا حسن رکھتی تھی، اپنے کلاس میں اپنی ہم جولیوں میں وہ ہر اعتبار سے فائق تھی مگر نہ جانے کس غم نے اس کے چہرے کی مسکان چھین لی تھی ، کس درد نے اس کی ہستی کو پژمردہ کردیا تھا ، اس کے مایوسی کا سبب کسی کو معلوم نہیں تھا وہ کسی سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کرتی تھی بس اسے جب بھی موقع ملتا وہ پارک کے اس حصے میں جاکر بیٹھ جاتی اور اپنی قسمت کو کوستی.
بڑے دن کے بعد جب حقیقت معلوم ہوئی تو سب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی ، در اصل شاذیہ کی امی اسے نو عمری میں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی اس نے ماں کے لمس و محبت کا کبھی ذائقہ نہیں چکھا ، ماں کی آنچل ہوا کا کبھی اس کو احساس ہی نہیں ہوا ، اسے اس کی امی یاد ہمیشہ پریشان کرتی اور درد جب حد سے بڑھ جاتا تو وہ آتی دو اشک بہالیتی اپنے غم کو ہلکا کرتی اور رخصت ہو جاتی یہی اس کی زندگی کا معمول بن گیا تھا اور یہی عادت سی ہوگئی تھی اس کی.
وہ روز اس جگہ آتی اور تصور میں اپنی والدہ سے محو گفتگو ہوتی امی! آپ اتنی جلدی کیوں چلی گئیں، میں تو آپ کو پریشان بھی نہیں کرتی تھی میں تو آپ کے کہنے پر محنت سے پڑھتی تھی ، ہمیشہ آپ کا اور ابو کا نام روشن کیا ، پھر بھی آپ مجھ سے کیوں ناراض ہوگئیں؟ آپ میری تکلیف پر تڑپ جاتی تھیں آپ کو نہیں دکھتا میں کتنی پریشان ہوں روز آپ سے باتیں کرتی ہوں پھر بھی آپ ناراض ہو.
پلیز امی آپ آجاؤ نہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے ، کالج آنے سے خوف ہوتا ہے ، آپ کی کمی بہت کھلتی ہے ، میں ہمیشہ آپ کو اسکول کے دروازے پر تلاش کرتی ہوں کہ کبھی تو آپ ملو گے ، امی اب مجھ میں جینے کی آس ختم ہوگئی ہے میں ٹوٹ کر بکھر چکی ہوں میری ذات منتشر ہوگئی ہے پلیز آپ آجاؤ مجھے حوصلہ دو مجھے سنبھال لو یہ کہ کر پھر وہ زارو قطار رونے لگتی کیوں کہ اسے معلوم تھا اس کی امی اب نہیں آنے والی
Arshik
12-Sep-2022 07:55 PM
بہت عمده👍👍
Reply
Farha khan
15-Dec-2021 08:23 PM
Good
Reply
fiza Tanvi
11-Dec-2021 04:54 PM
Waah kia baat he
Reply