Khuda
ہمدم پر اشعار
جی رک گۓ اے ہمدم دل خون ہو بھر آیا
اب ضبط کریں کب تک منہ تک جگر آیا
بھری برسات میں ہمدم یہ لہراتی ہوٸی بجلی
میری آنکھوں میں شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے
نے دوست نے شفیق نہ ہمدم نہ غمگسار
فکر اپنی اپنی کون سنبھالے کسی کا بار
ہمدم نہیں وہ تیرا اس سے نہ دم سازی
دل ہار چکا اب تو کس طور پھرے بازی
جو ہمدم ہو مٸیرے رکھے بد نظر
ہستے عشق مرا ترے بد اوپر
ہمدم نہ بغیر اہ کوٸی
جنرنالہ نہ خضر راہ کو ٸی
تیرے سوا اے دافع ہر غم
دکھیاروں کا کون ہے ہمدم
چراغ چاٹنے آیا ہے یاں دوالی
سواد ہند کے ہمدم یہ سر زمیں کا سانپ
بادم خود ہمدم ہشیار باش
صحبت اغیار بوری بات
ایک تھا نام مر تضی بیگم
چلنے میں وہ گزر گٸ ہمدم
ازقلم محمد توفیق سیتا پوری