وصلِ یار
وہ بستر پہ اوندھے منہ لیٹی تھی جب اسے سویرا نے زور سے ہلایا تو وہ اپنے خواب سے حقیقت کی دنیا میں لوٹی
"اللہ جانے اس لڑکی کو جاگتے میں خواب کیسے آ جاتے ہیں ایک میں ہوں جسے سوتے میں کبھی خواب نہیں آئے "سویرا نے اس کے عجب منطق پہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کندھے اچکائے
"کہاں کھوئی ہو لڑکی نیچے ممانی بلا رہی ہے شام کی تیاری کرنی ہے جلدی چلو"
کیوں میں نہیں آ رہی تم امی کو منع کردو کہہ دو وہ سو رہی ہے"
" ایسے کیسے جھوٹ کہہ دو میں نیچے اترو تم" وہ اب اسے باقائدہ پلنگ سے نیچے کھینچ رہی تھی
"افف لڑکی یہ مت کیا کرو میرے ساتھ "وہ جھنجلائی
"ہاں تو انسانوں کی طرح بات مان لیا کرو نہ"
"چلو جی" وہ منہ بسورتی پیروں میں چپل اڑیستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی تو سویرا نے اس کی چارپائی کی چادر برابر کرنے لگی ۔
~~~~~~~
وہ کیواسکی بائیک کو تین سو کی رفتار پہ کیے دوڑا رہا تھا کونسی جلدی تھی اسے اس بات سے سب لوگ انجان اس لڑکے کو تک رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بائیک عالیشان مکان کے سامنے روکی تھی جس کے گیٹ کیپر نے اسے دیکھتے ہی گیٹ واہ کر دیا تھا۔
وہ سر سے ہیلمٹ اترتا ہوا اب اپنے سلکی بالوں کو سیٹ کر رہا تھا جو ہیلمٹ کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے۔ سامنے سے آتی خوبصورت کم سن لڑکی اسے مسکراتے ہوئے دیکھ بھی رہی تھی اور اس کی جانب بڑھ بھی رہی تھی
"کیسی ہو بھالو" وہ اس کے گال پچکاتے ہوئے کہنے لگا
"افہوں بھائی یہ مت کیا کریں " وہ چڑتے ہوئے بولی تو ارحم بے زرر مسکرایا۔
"یہ بتاو امی کہاں ہے "
"وہ خالہ کے ساتھ گئی ہے آپ اندر چلے بابا انتظار کر رہے ہیں"۔
"کیا مطلب" وہ حیران ہوا سامنے کھڑی ماہم نے کندھے اچکائے وہ سیدھا لاؤنج کی جانب بڑھ گیا۔اندر کا ماحول کافی گرم لگ رہا تھا۔
"اسلام علیکم بابا "
"ہننہہہ آ گئے تم " لہجہ سخت تھا اس نے تھوک نگلا
"کیا ہوا ہے کوئی بتائے گا "وہ اب سامنے بنے مرغے کو سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا
"کچھ نہیں بھائی بس بابا کو میں نے ایک بار پھر لوڈو میں ہرا دیا تو وہ اس بات کا بدلہ لے رہے ہیں" وہ ہنوز اسی حالت میں بولا۔
"اے میرے خدا بابا آپ لوگ کن کاموں میں مصروف ہیں کیا آپ سب بھول گئے آج کی شام میرے لیے کتنی اہم ہے "
" اوہ یار میں تو بھول ہی گیا اچھا یہ صفیہ بیگم کہاں ہے"
" بابا وہ خالہ کے ساتھ گئی ہے بس آنے والی ہو گی "اس کے جواب کے بعد سب میں پھرتی آ گئی تھی ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا تھا۔
~~~~~~
وہ بھاگتی ہوئی اب ابا کے پاس پہنچی تھی جسکی آواز اس نے دور سے ہی سن لی تھی۔
"ابا جی آپ ہی سمجھائے امی کو میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے دیکھے "وہ منہ بسورتے ہوئے کہہ رہی تھی
"ارے کیا کہہ دیا امی نے میری جان کو "
"کیا کہے گی دن رات کام کرواتی ہیں مجھ سے"اس نے منہ چڑھاتے ہوئے کہا تو محسن صاحب اس کے انداز پہ مسکرائے اور اندر کی جانب بڑھ گئے حورین نے ان کی ہاتھ سے پھلوں اور سبزیوں کے سارے شاپر لے لیے تھے وہ پلنگ پہ بیٹھتے ہوئے اب زری بیگم کو دیکھ رہے تھے جنہیں اب اسکی پھرتی سے دروازہ کھولنے کی وجہ سمجھ آئی تھی۔
"لگا دی شکایتیں اپنے باپ کو اب جاو جا کے سویرا کی مدد کر"
"دیکھ رہے ہے نہ ابا "وہ ایک آئی برو اچکا کے بولتی ہوئی اب اندر کی جانب بھاگ گئی تھی جس پہ محسن صاحب ایک بار پھر سے مسکرا دیئے انہیں مسکراتا دیکھ زرین بیگم بول اٹھی
"آپ نا بس کر دے اب، اس کی شادی کی عمر ہو گئی ہے اور آپ نے اس کے ناز نخرے اٹھا اٹھا کے اسے بگاڑ دیا ہے"۔
"ارے میں کہاں اسے بگاڑ رہا ہوں میں تو بس اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کر دیتا ہوں۔
~~~~~~
لاونج میں سب لوگ مزے سے بیٹھے تھے جب حورین لوازمات کی سجی ہوئی ٹرالی لیے داخل ہوئی تو ارحم نے جی بھر کے حورین کو دیکھا جو اب سب کو چائے پیش کر رہی تھی ارحم کی امی نے حورین کو اپنے پاس بلایا تو وہ مسکرا کر ان کی جانب چل دی۔ اس کو پاس بٹھاتے ہوئے وہ مزید بولی تھی کہ میرا بیٹا تین سال باہر رہ کر آیا ہے مگر اب سے پاکستان میں ہی رہے گا کیوں ارحم ۔تین سال والی بات تک حورین اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی مگر وہ نام اس نے فورا آنکھیں سامنے بیٹھے وجود کی طرف گھومائی اور گویا اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا اور حورین اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی پھر بے اختیار اسکی آنکھیں اپنی ماں کی جانب اٹھی تھی۔
~~~~~~
سب لوگ جا چکے تھے اور اب سویرا کو بھی گھر جانا تھا وہ صحن میں چکر کاٹ رہی تھی جب گھر کا دروازہ کھٹکا تو وہ بھاگ کر دروازے کی جانب لپکی۔
"اسلام علیکم ساحر بھائی" وہ اپنا ڈوپٹہ سر پہ درست کرتے ہوئے بولی
"وعلیکم سلام تم کیا کر رہی ہو اس وقت صحن میں "سامنے سے چھ فٹ کا نوجوان اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
"ککچھ نہیں بھائی وہ ممیں مظہر کا انتظار کر رہی تھی" وہ اس سے ضرورت سے زیادہ ہی ڈرتی تھی اور اس باعث جواب دینا بھی مشکل ہو رہا تھا
"کیوں "اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے ایک اور سوال داغا آخر وہ اتنے سوال کیوں کر رہا تھا
"ممجھے گھر واپس جانا ہے کال کی ہے "اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
"اچھا چلو میں چھوڑ دیتا ہوں" وہ کہتے ہوئے پھر سے دروازہ کھولنے لگا تھا
"ممگر"
"کیا مگر "
"ممانی کو تو بتا دیں "
"ہممم چلو "وہ دونوں اب اندر کی جانب بڑھ گئے۔
~~~~~~
حورین ان لوگوں کے جانے کے بعد پریشان سی ہو کر رہ گئی تھی مگر ساحر کو عادت تھی کام سے آتے ہی اپنی چھوٹی بہن سے باتیں کرنے کی اپنی ماں کی شکایتیں سننے کی مگر وہ کہیں نظر نہ آئی تو اس نے آواز دینا شروع کر دیا۔
"ارے آرام سے کیا ہو گیا لڑکے تھکی ہوئی ہے اپنے کمرے میں بیٹھی ہو گی ٹی وی کے آگے"
"اچھا تو وہ جو رشتے والے آئے تھے ان کا کیا ہوا امی "
"ہاں تمہارے ابا کو تو پسند آئے ہے وہ لوگ لڑکا بھی اچھا کماتا ہے بہت اچھے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔"
"چلیں مگر میں بھی اس سے ایک بار ملنا چاہوں گا"
"ہاں ہاں تم بھی مل لینا۔"
سویرا اب کمرے سے سارا سامان اور چادر اوڑھے ہوئے واپس لاونج میں آ گئی تھی۔
"ممانی وہ"
"ہاں کیا ہوا سویرا آ گیا مظہر"
"وہ ننہیں مگر "
وہ امی میں جا رہا ہوں اسے چھوڑنے آپ فکر نہ کیجئے گا میں جلدی لوٹ آؤں گا "ساحر نے اسکی بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔
"ہاں ہاں جاو آرام سے اور راشدہ کو میرا سلام دینا "
"جی ممانی "وہ ان سے ملتے ہوئے باہر نکل گئی جبکہ ساحر اپنی بائیک اسٹارٹ کر چکا تھا۔ وہ فورا سے بائیک پہ بیٹھ گئی۔
~~~~~~
ارحم اپنے کمرے میں بیٹھا اب بلا جواز مسکرا رہا تھا جب اسکا بھائی اسکے کمرے میں داخل ہوا تھا
"اوہ تو جناب کو اپنی شادی کی خوشی ہو رہی ہے "
"ہاں ظاہر سی بات ہے اتنی مشکل سے تو یہ وقت آیا ہے"
"اچھا میں تو سمجھا تھا شاید تمہیں لڑکیوں سے الرجی ہے ہر لڑکی کو انکار جو کر دیتے تھے۔"
"ہاں اسکے علاوہ سب سے الرجی ہے "
"کیوں اسکو کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں بھائی "
"بس تم چھوٹے ہو ابھی نہیں سمجھو گے "
"اوہ ہیلو پورے سترہ کا ہوں آیا بڑا "وہ منہ بسورے بولا تو ارحم ہنس دیا۔
"اچھا بس اب اوور نہ ہو نکلو یہاں سے۔"
"ہننہہہ آیا بڑا "وہ پھر سے بڑبڑایا جس پہ ایک بار پھر ارحم مسکرایا اور اسے لگا اسکا بھائی پاگل ہو گیا ہے جو آج اسکی ہر بات پہ مسکرا رہا تھا۔
~~~~~~
وہ سارے کمرےمیں ٹہل رہی تھی اس نے کتنی دعائیں مانگی تھی کہ وہ پاگل شخص پاکستان واپس نہ آئے اور وہ یہاں پہنچ چکا تھا بلکہ اب تو وہ اسکے گھر بھی پہنچ گیا تھا اور سب گھر والوں کو بھی پسند آ گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر اس پل کو کوسنے لگی جب وہ اس سے ملی تھی۔
وہ رات کتنی بری تھی اس رات کو کتنا نقصان ہوا تھا اسکا اور اسکی جان سے پیاری اکلوتی دوست کا اسے اچانک سویرا کا خیال آیا تو وہ فورا لاونج میں گئی جہاں اب کوئی بھی نہیں تھا اور ساحر بھائی وہ کہاں گئے تھے۔ابھی وہ لاونج کو تک رہی تھی کہ ایک بار پھر سے دروازہ کھٹکنے لگا تھا وہ فورا دروازے کی جانب لپکی۔
"آ گئے بھیا "
"ہاں جناب تم اٹھ گئی "ساحر اب بائیک اندر کر رہا تھا
"جی مگر سویرا کہاں ہے بھائی "
"ارے وہ تو اپنے گھر چلی گئی ہے" ساحر اب اپنی ٹوپی اور چابی پکڑے ہوئے اسکی جانب مڑا
"مگر وہ مجھ سے ملے بغیر کیسے جا سکتی ہے" اس نے منہ بنایا۔
"تم سو رہی تھی حور "
"آپ اسے اچھے سے چھوڑ کے آئے ہے نہ وہاں کوئی اسے کچھ کہہ تو نہیں رہا تھا بتائے"حور فکر مندی سے اسے تک رہی تھی
"مجھے نہیں پتہ وہ اندر چلی گئی تو میں باہر سے ہی واپس آ گیا"
"کیا بھائی آپکو پتا تو ہے ان سب کا، کتنا برا سلوک کرتے ہے وہ اس کے ساتھ اور وہ اتنی بے وقوف ہے سب کچھ سہتی رہتی ہے کچھ کہتی بھی نہیں" اسے اب سویرا کی فکر ہو رہی تھی۔
"نہیں کچھ نہیں ہو گا ہم کل اس کا پتہ کر آئے گے تم چلو اب اندر بہت رات ہو گئی ہے" وہ دونوں اب اندر کی جانب چل دئیے تھے۔
~~~~~~
سویرا اپنے کمرے میں بیٹھی سامنے کھڑکی سے نظر آتے ہوئے آسمان کو تک رہی تھی وہ کمرہ کم اور کباڑ خانہ زیادہ تھا جس کا دروازہ بھی عجیب ٹوٹا پھوٹا سا تھا اور کہاں اسکے باپ کی باقی دونوں بیٹیوں کے کمرے تھے جو اسکی سوتیلی ماں سے تھی اور مظہر وہ ہی تو وجہ تھی اس شادی کی اسکے باپ نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی کی تھی کیونکہ اسکی ماں کو سویرا کے پیدا ہونے پہ ڈاکٹرز نے صاف جواب دے دیا تھا کہ اسکے بعد کوئی اولاد نہیں ہو سکتی جبکہ اسلم صاحب کو تو ہر حال میں بیٹے کی ضرورت تھی اسی لیے انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔اس بات کو افشین نے اپنے دل سے اس قدر لگا لیا تھا کہ وہ ہیپاٹائٹس جیسے موضی مرض میں مبتلا ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زندگی کا طویل سفر چند سالوں میں گزار کر اس دنیا سے خود تو چلی گئی مگر اپنی لاڈلی بیٹی کو اس بے مروت دنیا کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔وہ شب وروز بس اپنی ماں کو یاد کر کے رویا کرتی تھی آج چار سال بعد بھی وہ غم اسے اتنی ہی تکلیف پہنچاتا تھا جتنا پہلے دن تھا اسکے غم کا کسی نے مداوا نہیں کیا تھا صرف ایک تھی جو اس کے لیے بے دریغ ہر کسی سے لڑ جاتی تھی۔ اسکی جان سے پیاری بہن حورالعین روتے میں بھی وہ اسے ہنسانے کا ہنر جانتی تھی۔
~~~~~~~
"امی آپ منع کر دے اس رشتے کو پلیز "حور ماں کے پاس بیٹھی پچھلے آدھے گھنٹے سے ماں کو منانے کی کوشش کر رہی تھی
"بلکل نہیں پہلے تمہاری پڑھائی کی وجہ سے میں نے اتنے اچھے اچھے رشتے موڑے ہے اب کی بار بلکل ایسا نہیں ہو گا یہ رشتہ تمہارے ابا کو بھی بہت پسند آیا ہے۔"
"یہ کیا بات ہوئی جب میں ایک بار کہہ چکی ہوں کے مجھے یہاں شادی نہیں کرنی تو کیا مسئلہ ہے آپکا"وہ تڑخ کے بولی
"
میرے سے بدتمیزی مت کرو حور میں نے ایک بار کہہ دیا سو کہہ دیا اب ایسا نہیں ہو گا"وہ تنبیہہ کرتے ہوئے بولی تھی
"امی پلیز بس آپ اس رشتے کو انکار کر دیں پھر جہاں آپ کہے گی وعدہ کرتی ہوں وہی کروں گی شادی۔" اسکی بات پہ زرین بیگم نے نفی میں سر ہلایا تو وہ پیر پٹختی ہوئی لاونج سے باہر نکل گئی۔
~~~~~~
صحن میں موجود چھت کو جاتی سیڑھیوں پہ سر گھٹنوں میں دیئے وہ بیٹھی اب اس مصیبت سے جان چھڑانے کی ترکیب سوچ رہی تھی۔ آج ساحر ارحم سے ملنے جانے والا تھا اور اگر اس نے اپنی بہن کے لیے ارحم کو پسند کر لیا تو یقینا اس شادی کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ کچھ لمحے یونہی اپنا سر جھکائے بیٹھی حور کو اس وقت سویرا کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔وہ فورا فون پہ کال ملاتے ہوئے اب چھت کا رخ کر گئی تھی۔تیسری کال پہ فون ریسیو کیا گیا تھا۔
"ہیلو سویرا"
"ہاں حور کیسی ہو تم "
"میں بلکل ٹھیک نہیں ہو یار تمہیں پتا ہے کل کس کا رشتہ آیا تھا"
"نہیں مجھے نہیں پتہ میں اس وقت کچن میں تھی ہاں مگر ماموں کو وہ لڑکا بہت پسند آیا ہے تمہارے لیے "وہ آخری جملہ مسکرا کر بولی تھی جس پہ حور کا دل چاہا وہ رو دے۔
"وہ ارحم ہے سویرا" اس نے مردہ ہوتی آواز میں کہا
"کون ارحم حوریاں،ایک منٹ وہ ہسپتال والا "وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولی
"ہاں وہی ارحم "اب کی بار حور کے ساتھ ساتھ سویرا کے لبوں کی مسکراہٹ بھی سمٹی تھی حیرت سے آنکھیں پھٹنے کو تھی۔
"اب کیا ہو گا تمہیں تو اس سے نفرت ہے۔"
"آج ساحر بھائی اس سے ملنے جا رہے ہیں اگر ایک بار وہ شخص انہیں پسند آ گیا تو پھر اس شادی کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا سویرا"وہ پریشانی سے پوری چھت چھت پہ ٹہلرہی تھی۔
"تم فکر مت کرو یار میں ابھی کچن میں جا رہی ہوں راشدہ آنٹی بلا رہی ہے بعد میں بات کروں گی۔"
"ہممم اوکے "وہ چلتے چلتے اب آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔
~~~~~~~
آج ساحر کو اپنے دفتر سے چھٹی تھی وہ بھورے قمیض شلوار میں ملبوس ایک سادہ مگر خوبصورت اور وجیہہ جوان تھا اسکو یوں تیار دیکھ کر حورین کو اپنے بھائی پہ جی بھر کے پیار آیا تھا وہ ہاتھ میں کھیرے کا ٹکڑا پکڑے کھاتے ہوئے اسے مصنوعی حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"واہ بھائی آج تو آپ بجلیاں گرانے کے موڈ میں لگ رہے ہیں"
"ہاں "وہ مسکرایا اور شال کو کندھے پہ درست کرتا ہوا بولا
"اچھا دھیان سے جائیے گا ورنہ آج آپ دو چار لڑکیوں کو مار ڈالے گے"ساحر اسکی بات پہ مبہم سا مسکرایا تھا۔
"اچھا بھائی میرا ایک کام کریں گے "اس نے آنکھوں میں امید لیے پوچھا
"کیا "وہ بائیک کی چابی اٹھائے اب لاونج سے باہر جا رہا تھا جب اسے حور نے بلایا تو وہ پلٹ کر اسکی جانب متوجہ ہوا
"واپسی پہ سویرا کو لیتے آئیے گا پلیز" وہ التجائیہ انداز میں بولی تو ساحر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور گھر سے باہر کی جانب چل دیا۔
~~~~~~~~
مظہر کی خالہ کا بیٹا آج شام ایک بار پھر نازل ہونے والا تھا وہ کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی جب اسکی سوتیلی بہن ہمہ نے اسے جوس لانے کا کہا اور واپس چلی گئی۔
وہ سب کو جوس پیش کر رہی تھی جب اس نے مظہر کے خالہ زاد بھائی کو جوس پیش کیا تو اس نے جان بوجھ کر اسکے ہاتھ کو چھوا جس کی وجہ سے سویرا کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر زمین پہ گر گیا جس سے اس لڑکے کی شرٹ اور مظہر کا جوتا گندا ہو گیا تھا
"یہ کیا کیا ناس پیڑی کبھی کوئی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کر"راشدہ بیگم غصے سے چیخی
"سوری آنٹی وہ میں "!
"کیا میں ،تم نے سارا میرا جوتا گندا کر دیا ہے اب اسے صاف کرو جلدی بے وقوف نہ ہو تو "مظہر غصے سے اس پر چیخ رہا تھا ہمہ اس لڑکے کو واشروم لے گئی تھی۔
"ججی بھائی" وہ کہتے ہی آگے بڑھی اور اپنے ڈوپٹے سے اسکی جوتی صاف کرنے لگی جب ہی داخلی دروازے سے اسے آواز سنائی دی تھی
"روکو، یہ کیا کر رہی ہو تم سویرا "وہ غصے سے اسکی جانب لپکا اور اس کا بازو تھامے زمین سے اٹھایا۔ سویرا اب حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"لو جی آ گیا میڈم کا نیا ہمدرد "راشدہ بیگم نخوت سے بولی تو سویرا نے جھٹ سے ان کو دیکھا۔
"چلو یہاں سے "وہ اسے وہاں سے اپنے ساتھ لیے باہر نکل آیا۔
وہ دونوں باہر صحن میں پہنچے تھے کہ سویرا نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔ اس کی اس دیدہ دلیری پہ ساحر کو جھٹکا لگا تھا۔ وہ اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔
"آپ ہوتے کون ہیں میرے اور میرے بھائی کے درمیان آنے والے کس حق سے آپ نے مجھے ہاتھ لگایا "وہ غصے اور تکلیف کے ملے جلے جذبات لیے کہہ رہی تھی اور ساحر کو لگا سویرا نے اسکے منہ پہ طماچہ مار دیا ہے۔
"تم اس شخص کو اپنا بھائی قرار دے رہی ہو جو بھائی کہلانے کا حقدار بھی نہیں "وہ غصے لب بینچے کہتا ہوا اسکی جانب جھکا تو سویرا سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں "ساحر کے عقب سے آواز آئی تھی اور سویرا کو لگا اسکے لب سل چکے ہیں اور سانس کہیں گم ہو گیا ہے۔وہ خوف کے مارے زرد ہو رہی تھی۔
"میں پوچھ رہا ہوں سویرا تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو" وہ سختی سے لب بینچے اسکی جانب بڑھے تو سویرا کی جگہ ساحر بول اٹھا۔
"وہ پھوپھا میں اسے لینے آیا تھا امی نے بلوایا ہے حور یاد کر رہی تھی۔"وہ ایک گہری نظر ڈری سہمی سویرا پہ ڈالتے ہوئے اب ساحر کی جانب متوجہ ہو گئے۔
"ہممممم ٹھیک ہے چلی جاو مگر یاد رہے شام سے پہلے تم مجھے گھر پر واپس ملو" انکی اجازت ملتے ہی ساحر پلٹ گیا تھا جبکہ سویرا نے اندر جاتے بابا کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری۔
"میں باہر انتظار کر رہا ہوں "ساحر کہتے ہی باہر کی جانب بڑھ گیا جبکے سویرا اب اسکی پشت کو تک رہی تھی اگر اسے حور نے بلوایا تھا تو وہ انکار کیسے کر سکتی تھی۔
~~~~~~
وہ اپنے کام کو نمٹا کر گھر واپس لوٹ رہا تھا گاڑی پارکنگ سے نکال کر اس نے ابھی روٹ پہ ڈالی ہی تھی کے سامنے سے سیاہ چادر میں لپٹی لڑکی اسکی گاڑی سے ٹکرائی اور وہی زمین پہ بیٹھ گئی وہ فورا گاڑی سے باہر نکلا تھا۔
"بے وقوف انسان اندھے ہو تم ہو جو بنا سامنے دیکھے گاڑی چلا رہے ہو"وہ ہنوز زمین پہ بیٹھی زمین سے دوائیاں اکھٹی کرتے ہوئے بولی
"اندھی تو تم ہو جو اس وقت سڑک کے بیچ" اسکے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کے وہ لڑکی زمین سے اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی اسکی سمندر جیسی گہری نیلی آنکھوں میں اس وقت غصہ بھرا ہوا تھا اور بے دیھانی میں چادر بھی چہرے سے ہٹ گئی تھی۔ اس نے فوری طور پر اپنا چہرہ ڈھکا تھا اس سے پہلے وہ کچھ کہنے کو اپنے لب کھولتی ایک دوسری لڑکی اسکی جانب دوڑتی ہوئی آئی تھی۔
"حور !" وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ وہ لڑکا اب اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بے چینی سے اسکی جانب لپکی تھی
"تم یہاں کھڑی ہو ان اندر امی وہ"
"کیا ہوا انہیں "وہ اب اندر جاتی ان دونوں لڑکیوں کو تک رہا تھا جو خاصی پریشان لگ رہی تھی۔ اس نے سر جھٹکا مگر وہ ان نیلی آنکھوں کو ہر گز منظر سے ہٹانے میں ناکام ہوا تھا۔
~~~~~~~
وہ دونوں گھر کے دروازے کے اس پار کھڑے تھے ساحر نے بائیک سائیڈ میں کھڑی کی اور اب غصے سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔ سویرا ڈری سہمی ہوئی ایک طرف کھڑی تھی وہ تو اپنی ہمت پہ حیران تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اب راشدہ اس بات کی سو باتیں بنائے گی اور ابا کو بھی نا جانے کیا کیا کہے گی۔ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے کردار پہ کسی طرح کا الزام برداشت نہیں کر سکتی تھی بھلے اسکے لیے اسے کسی سے بھی کیوں نا لڑنا پڑے۔ اسے ابھی سے ابا کے ردعمل سے خوف آ رہا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی زرین بیگم بول اٹھی
"بسمل اللہ آ گیا میرا بچہ "
"جی" وہ کہتا ہوا اندر داخل ہوا تو سویرا بھی اسکے پیچھے اندر کی جانب چل دی ممانی کو سلام کرتے ہی وہ لاونج میں بیٹھی حور کے پاس آ بیٹھی اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر حور اپنی پریشانی ایک لمحے میں بھول گئی تھی
"کیا ہوا ہے سویرا" اس نے ایک ہاتھ اسکے چہرے پہ رکھتے ہوئے محبت سے پوچھا۔محبت بھرا لمس پا کر سویرا کی آنکھیں ایک لمحے میں بھر گئی تھی۔ ایک وہی تھی جو اسکی ہر تکلیف کو بنا کہے سمجھ جاتی تھی وہ اس سے لپٹ کے رونے لگی تھی مگر حور نے اسے روکا نہیں وہ ہمیشہ یوں ہی اسے اسکا دل ہلکا کرنے دیتی تھی وہ جانتی تھی ضرور راشدہ یا گھر کے کسی فرد نے پھر اس کا دل دکھایا ہو گا وہ اسکی کمر سہلانے لگی جو اب باقائدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔
"اچھا بس اب" وہ اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولی تو سویرا اس سے دور ہوئی۔
"صاف کرو یہ آنسو اتنے سستےنہیں ہے جو ان جیسے لوگوں کے لیے بہائے جائے"اس نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا تو ساحر لاونج میں داخل ہوا جس کا چہرہ اس وقت لال بھبوکا بنا ہوا تھا یقینا وہ بھی غصے میں تھا مگر "کیوں کیا وہ "،ایک دم سے اچھلی "کیا اسے ارحم پسند نہیں آیا تھا "وہ اسکی پشت تکتے ہوئے اپنی سوچ پہ مسکرائی جو اب اپنے کمرے میں گھس گیا تھا۔
"ارے انہیں کیا ہوا ہے" وہ اب سامنے سے آتی زرین بیگم سے پوچھ رہی تھی
"پتا نہیں کس سے لڑ کے آیا ہے"وہ پریشانی سے بولی تو حور کے لبوں پہ بلاجواز ہی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"تو کیوں ہنس رہی ہے چل جا سویرا کے لیے کچھ پینے کو لے کے آ "وہ کہتے ہوئے اپنے تختے پہ بیٹھ گئی۔
"جی" وہ کہتے ہی کچن کی جانب دوڑ گئی۔ جبکہ سویرا ابھی تک گم سم سی وہی صوفے پہ بیٹھی ہوئی تھی۔
~~~~~~
وہ گھر لوٹ آیا تھا مگر وہ چاہ کر بھی ان نیلی آنکھوں کو بھلا نہیں پایا تھا کون تھی وہ لڑکی اس نے اسکا پورا چہرہ نہیں دیکھا تھا ہاں مگر وہ آنکھیں ،کتنی کشش تھی اس کی آنکھوں میں وہ سمندر جیسی گہری آنکھیں غصے سے بھری ہوئی تھی اس نے اسکے الفاظ کہاں سنے تھے وہ تو بس ان آنکھوں میں کھو گیا تھا ہاں مگر وہ الفاظ ہاں اس نے اس دوسری لڑکی کے الفاظ سنے تھے۔ اس نے زیرِ لب وہ الفاظ دہرائے "حور "اور پھر خود ہی مسکرا دیا۔ "تم کب سے اسیر ہو گئے ان چیزوں کے" پھر خود ہی اپنے آپ سے سوال بھی کر ڈالا مگر آج پہلی بار اسکے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ وہ اپنی ہی سوچوں کے بھنور میں الجھ کر رہ گیا تھا۔
~~~~~~
شام کے سائے ہر طرف لہرا رہے تھے حور کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ارحم کے الفاظ زہن میں گردش کرنے لگے تھے "ارحم کو جو چیز پسند آ جائے وہ بس ارحم آفندی کی ہوتی ہے میں پھر اس پہ کسی دوسرے کی نظر بھی گوارا نہیں کرتا مائنڈ اٹ"آج اسکی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا مگر ساحر تو صبح سے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا وہ اب گھر کی چھت پہ کھڑی اپنے پرندوں سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ سر جھکائے اسکی ہر بات سن رہے تھے۔ بنا کوئی جنبش کئیے وہ اسکی بات سن رہے تھے۔اسکی باتوں سے ان کو عشق تھا مگر آج حور اداس تھی اسی لیے وہ بھی اداس ہو گئے تھے۔
~~~~~~~~
ساحر غصے میں تھا وہ سچ کہتی تھی اسکا اس پہ کوئی حق نہیں تھا مگر کیا وہ اسے اپنا بھائی بھی نہیں مانتی تھی جبکہ ساحر نے حور اور سویرا میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔ وہ بستر پہ لیٹا اپنی سوچوں میں مگن تھا جب اس کے فون نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا جس پہ نمرا کالنگ جگمگا رہا تھا اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے ہنکارا بھرا
"ہنہہہ"
"تم کہاں ہو ساحر میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں۔"وہ غصے سے بولی تھی
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے نمرا"
"مگر تم نے مجھ سے آج ملنے کا وعدہ کیا تھا نہ"
"ہاں مجھے یاد ہے۔"
"تو اب تمہیں کیا ہوا" وہ ساحر پہ تپی ہوئی تھی۔
"کچھ نہیں تم میرا انتظار کرو میں آ رہا ہوں" وہ اسے ناراض کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا آخر وہ اسکی پسند تھی۔
"اوکے"وہ کہتے ہی فون بند کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔ تم نمرہ جہانزیب کو انکار کرو یہ ہو ہی نہیں سکتا" وہ فخریہ انداز سے کہتے ادا سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے ہوٹل کے اندر داخل ہوئی تھی۔
~~~~~~
سویرا رات کا کھانا بنانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی اپنا پسندیدہ شغل فرما رہی تھی اسے چاند سے عشق تھا اور چاند کو اس سے وہ جیسے اس کی کھڑکی سے روز اسے ہی ملنے آتا تھا۔چند لمحوں بعد قدموں کی آہٹ پہ وہ پلٹی تھی اسے دروازے کی دہلیز پہ کسی کے وجود کا احساس ہوا تو وہاں کھڑے اپنے باپ کو دیکھ کر سویرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"ارے بابا آپ کو اگر کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیتے "
"نہیں میں تم سے کچھ بات کرنے آیا تھا سویرا۔"
"جی بابا کہیے" وہ دو بدو بولی
"تمہاری ماں چاہتی ہے اب تمہاری شادی کردی جائے۔
مگر بابا
مجھے لگتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہی ہے دیکھو اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو تم بلا جھجک مجھے بتا سکتی ہو وہ اس سے لیا کہہ رہے تھے یہ ایک دم شادی کا معاملہ کہاں سے آیا وہ تو سمجھ رہیتھی بابا اس سے مظہر سے معافی مانگنے کا کہے گے اور وہ بنا ایک لمحہ ضائع کیے اس سے معافی بھی مانگ لے گی مگر یہ کیا وہ تو کچھ اور ہی بات کر رہے تھے۔آج سے پہلے تو انہوں نے کبھی بھی سویرا سے اسکی پسند نا پسند نہیں پوچھی تھی پھر آج کیوں۔ کیا راشدہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ نہیںوہ ایسی نہیں ہے اسے اپنے باپ کو اس بات کا یقین دلانا تھا مگر وہ تو اس پہ سارے دروازے بند کیے اس سے اسکی اجازت مانگ رہے تھے کیا وہ ان پہ بوجھ تھی۔ ہاں وہ ان پہ بوجھ ہی تھی۔جب فراز صاحب نے مسلسل سویرا کو خاموش دیکھا تو اسے ایک بار پھر سے مخاطب کیا۔
سویرا مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا
مگر بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔
ایک نہ ایک دن تو یہ سب ہونا ہی ہے پھر ابھی کیوں نہیں وہ کہہ کر جا چکے تھے مگر سویرا کے قدموں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی تھی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسکا سگا باپ ہے کیا ایسے ہوتے ہیں باپ۔ وہ سر ہاتھوں میں دیئے رونے لگی تھی۔ آج کی رات پھر آنسوؤں کےساتھ گزرنے والی تھی مگر آج آنسوؤں کی وجہ کسی کی دی گئی تکلیف نہیں بلکہ اپنے باپ کے الفاظ تھے۔ کتنے اچھے دن تھے وہ جب وہ گھنٹوں اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر اسے اپنی پسند ناپسند بتایا کرتی تھی اور وہ اسکی ہر خواہش بنا کسی تردید کے پوری کرتے تھے۔
~~~~~~~
ساحر اور نمرا دونوں ہوٹل میں بیٹھے تھے جب نمرا نے اسے مخاطب کیا۔
ساحر تمہارے پیرنٹس رشتہ کب لائے گے وہ بے چینی سے پوچھ رہی تھی
دیکھو نمرا ایک بار حور کا رشتہ طے ہو جائے پھر میں گھر میں تمہارے بارے میں بات کروں گا
لک ساحر میرے ڈیڈ کے ایک بہت ہی اچھے دوست کے بیٹے کا پرپوزل آیا ہے اور اس بار اگر تم نے دیر کردی تو میں بابا کو منع نہیں کر پاوں گی۔
مگر نمرا تمہیں میرے لیے اس پرپوزل کو انکار کرنا پڑے گا
ہر گز نہیں اگرتم اپنے گھر والوں کو جلدی نہ لائے تو یاد رکھنا کہ تم نے نمرا جہانزیب کو کھو دیا۔
نمرا تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔
تو جلدی مناو نہ اپنے گھر والوں کو۔
ہاں مگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس پرپوزل کو انکار کرو گی۔
اچھا اس بارے میں بعد میں بات ہوگی فلحال مجھے کچھ کھلاو بہت بھوک لگی ہے۔
ہممم ٹھہرو اس نے فورا ایک بہرے کو اشارے سے اپنے پاس بلایا تھا جبکہ نمرا اب فون میں مگن ہو چکی تھی۔
~~~~~~~
ارحم ہوسپٹل سے نکل گیا تھا بے چینی اس قدر بڑھ گئی تھی اب اس سے ایک لمحہ بھی انتظار نہیں ہو رہا تھا۔وہ پہلی فرصت میں اپنی بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر کے لیے نکل گیا تھا۔ آج حور کے گھر والوں نے اپنا جواب دینا تھا دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اسکی پریشانی بھی بڑھ رہی تھی مگر اس بات کا تہیہ تو وہ تین سال پہلے ہی کر چکا تھا جب وہ ان نیلی آنکھوں کا اسیر ہوا تھا کہ وہ حور کہ علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ بائیک اپنی ازلی سپیڈ پہ چلاتے ہوئے وہ اسکی یادوں میں ہی کہیں کھو گیا تھا۔دیھمی مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کو چھوا تھا۔
~~~~~~~
دن کے بارہ بجے کے قریب وہ دونوں ہسپتال کے کیفیٹیریا میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ہسپتال معمول کے مطابق بھرا ہوا تھا ہر طرف لوگ اپنے اپنے مریضوں کی خاطر بھاگ دوڑ کر رہے تھے وہ دونوں بھی ابھی افشین کو سلا کر کچھ کھانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ تب ہی کوئی شخص ان کے قریب پڑی خالی کرسی پہ براجمان ہوا۔پہلے اسے سویرا اور پھر حور نے دیکھا تھا۔
"ہیلو مس اندھی کیسی ہو"۔ اسکے دیکھنے پہ وہ بلا جھجک بولا
اوہ ہیلو مسٹر بے وقوف تمیز سے" اسکے نام لینے کے انداز سے ارحم محفوظ ہوا تھا یعنی وہ اسے پہچانتی تھی مگر حور نے آج بھی چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔
"حور تم انہیں جانتی ہو" سویرا نے سرگوشی کی
"ہاں یہ ہی وہ رات والا بے وقوف" حور نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"آپ لوگ یہاں کسی پیشنٹ کے ساتھ ہیں "اس نے نیا سوال داغا
"جی" حور کی جگہ سویرا نے جواب دیا تھا۔
"اوہ اچھا پیشنٹ آپ کا کیا لگتا ہے" اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو حور اسکی اس قدر دلچسپی سے جنجھلائی وہ بلا جواز ہی اتنا فرینک ہو رہا تھا۔
"کیوں ہم آپ کو کیوں بتائے اور سوالات تو ایسے کر رہے ہو جیسے یہاں کے ڈاکٹر ہو-" وہ تنککے بولی۔
"وہ بھائی میری امی ایڈمٹ ہے یہاں"سویرا نے مختصر سا جواب دیا۔
"ہممممم" ارحم نے حور کو بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا جو اب دوسری جانب لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
"اچھا چلیں ہوپ سو وہ جلد صحتیاب ہو جائے" وہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"آمین "سویرا اس کی بات پہ مسکرائی تھی۔جبکہ وہ حور پہ ایک بھرپور نظر ڈالتا ہوا کیفیٹیریا سے باہر نکل گیا۔
شام کے سائے ہر طرف لہرا رہے تھے حور کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ آج اسکی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا مگر ساحر تو صبح سے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا وہ اب گھر کی چھت پہ کھڑی اپنے پرندوں سے باتیں کر رہی تھی۔ جو سر جھکائے اسکی ہر بات سن رہے تھے۔ وہ اس کی باتوں کے دیوانے تھے مگر آج وہ اداس تھی اسی لیے وہ بھی بنا کچھ بولے اس کی اداسی میں شریک تھے۔
~~~~~~~
ساحر غصے میں تھا وہ سچ کہتی تھی اسکا اس پہ کوئی حق نہیں تھا مگر کیا وہ اسے اپنا بھائی بھی نہیں مانتی تھی جبکہ ساحر نے حور اور سویرا میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔ وہ بستر پہ لیٹا اپنی سوچوںمیں مگن تھا جب اس کے فون نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا جس پہ نمرا کالنگ جگمگا رہا تھا اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے ہنکارا بھرا
"تم کہاں ہو ساحر میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں"۔وہ غصے سے بولی تھی
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے نمرا"
"مگر تم نے مجھ سے آج ملنے کا وعدہ کیا تھا نہ "
"ہاں مجھے یاد ہے۔"
"تو اب تمہیں کیا ہوا" وہ ساحر پہ تپی ہوئی تھی۔
"کچھ نہیں تم میرا انتظار کرو میں آ رہا ہوں" وہ اسے ناراض کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا آخر وہ اسکی پسند تھی۔
"اوکے "وہ کہتے ہی فون بند کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔ "تم نمرہ جہانزیب کو انکار کرو، ایسا ممکن نہیں ہے " وہ فاتحانہ انداز میں کہتے ہی ادا سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے ہوٹل کے اندر داخل ہوئی تھی۔
~~~~~~
سویرا رات کا کھانا بنانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی اپنا پسندیدہ شغل فرما رہی تھی اسے چاند سے عشق تھا اور چاند کو اس سے وہ جیسے اس کی کھڑکی سے روز اسے ہی ملنے آتا تھا۔چند لمحوں بعد قدموں کی آہٹ پہ وہ پلٹی تھی اسے دروازے کی دہلیز پہ کسی کے وجود کا احساس ہوا تو وہاں کھڑے اپنے باپ کو دیکھ کر سویرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ارے بابا آپ اگر کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیتے "
"نہیں میں تم سے کچھ بات کرنے آیا تھا سویرا۔"
"جی بابا کہیے" وہ دو بدو بولی
"بیٹا تمہاری ماں چاہتی ہے اب تمہاری شادی کردی جائے۔"
"مگر بابا" اس نے بے یقینی سے باپ کو دیکھا تھا۔
"مجھے لگتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہی ہے دیکھو اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو تم بلا جھجک مجھے بتا سکتی ہو" وہ اس سے کیا کہہ رہے تھے یہ ایک دم شادی کا معاملہ کہاں سے آیا وہ تو سمجھ رہی تھی بابا اس سے مظہر سے معافی مانگنے کا کہیں گے اور وہ بنا ایک لمحہ ضائع کیے اس سے معافی بھی مانگ لے گی مگر یہ کیا وہ تو کچھ اور ہی بات کر رہے تھے۔آج سے پہلے تو انہوں نے کبھی بھی سویرا سے اسکی پسند نا پسند نہیں پوچھی تھی پھر آج کیوں۔ کیا راشدہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ، نہیں وہ ایسی نہیں ہے اسے اپنے باپ کو اس بات کا یقین دلانا تھا مگر وہ تو اس پہ سارے دروازے بند کیے اس سے اسکی اجازت مانگ رہے تھے کیا وہ ان پہ بوجھ تھی۔ ہاں وہ ان پہ بوجھ ہی تھی۔جب فراز صاحب نے مسلسل سویرا کو خاموش دیکھا تو اسے ایک بار پھر سے مخاطب کیا۔
"سویرا مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا"
"مگر بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
"ایک نہ ایک دن تو یہ سب ہونا ہی ہے پھر ابھی کیوں نہیں" وہ کہہ کر جا چکے تھے مگر سویرا کے قدموں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی تھی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسکا سگا باپ ہے کیا ایسے ہوتے ہیں باپ۔ وہ سر ہاتھوں میں دیئے رونے لگی تھی۔ آج کی رات پھر آنسوؤں کےساتھ گزرنے والی تھی مگر آج آنسوؤں کی وجہ کسی کی دی گئی تکلیف نہیں بلکہ اپنے باپ کے الفاظ تھے۔ کتنے اچھے دن تھے وہ جب وہ گھنٹوں اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر اسے اپنی پسند ناپسند بتایا کرتی تھی اور وہ اسکی ہر خواہش بنا کبھی انکار کے پوری کرتے تھے۔
~~~~~~~
ساحر اور نمرا دونوں ہوٹل میں بیٹھے تھے جب نمرا نے اسے مخاطب کیا۔
"ساحر تمہارے پیرنٹس رشتہ کب لائے گے" وہ بے چینی سے پوچھ رہی تھی
"دیکھو نمرا ایک بار حور کا رشتہ طے ہو جائے پھر میں گھر میں تمہارے بارے میں بات کروں گا "
"لک ساحر میرے ڈیڈ کے ایک بہت ہی اچھے دوست کے بیٹے کا پرپوزل آیا ہے اور اس بار اگر تم نے دیر کردی تو میں بابا کو منع نہیں کر پاوں گی۔"
"مگر نمرا تمہیں میرے لیے اس پرپوزل کو انکار کرنا پڑے گا۔"
"ہر گز نہیں اگرتم اپنے گھر والوں کو جلدی نہ لائے تو یاد رکھنا کہ تم نے نمرا جہانزیب کو کھو دیا۔"
"نمرا تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور یہ میں ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔"
"تو جلدی مناو ناں اپنے گھر والوں کو۔"
"ہاں مگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس پرپوزل کو انکار کرو گی۔"
"اچھا اس بارے میں بعد میں بات ہوگی فلحال مجھے کچھ کھلاو بہت بھوک لگی ہے۔ "
ہممم ٹھہرو "اس نے فورا ایک بہرے کو اشارے سے اپنے پاس بلایا تھا جبکہ نمرا اب فون میں مگن ہو چکی تھی۔
~~~~~~~
ارحم ہوسپٹل سے نکل گیا تھا بے چینی اس قدر بڑھ گئی تھی اب اس سے ایک لمحہ بھی انتظار نہیں ہو رہا تھا۔وہ پہلی فرصت میں اپنی بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر کے لیے نکل گیا تھا۔ آج حور کے گھر والوں نے اپنا جواب دینا تھا دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اسکی پریشانی بھی بڑھ رہی تھی مگر اس بات کا تہیہ تو وہ تین سال پہلے ہی کر چکا تھا جب وہ ان نیلی آنکھوں کا اسیر ہوا تھا کہ وہ حور کہ علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ بائیک اپنی ازلی سپیڈ پہ چلاتے ہوئے وہ اسکی یادوں میں ہی کہیں کھو گیا تھا۔دیھمی مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کو چھوا تھا۔
~~~~~~~
دن کے بارہ بجے کے قریب وہ دونوں ہسپتال کے کیفیٹیریا میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ہسپتال معمول کے مطابق بھرا ہوا تھا ہر طرف لوگ اپنے اپنے مریضوں کی خاطر بھاگ دوڑ کر رہے تھے وہ دونوں بھی ابھی افشین کو سلا کر کچھ کھانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ تب ہی کوئی شخص ان کے قریب پڑی خالی کرسی پہ براجمان ہوا۔پہلے اسے سویرا اور پھر حور نے دیکھا تھا۔
"ہیلو مس اندھی کیسی ہو"۔ اسکے دیکھنے پہ وہ بلا جھجک بولا
"اوہ ،ہیلو مسٹر بے وقوف تمیز سے" اسکے نام لینے کے انداز سے ارحم محفوظ ہوا تھا یعنی وہ اسے پہچانتی تھی مگر حور نے آج بھی چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔
"حور تم انہیں جانتی ہو" سویرا نے سرگوشی کی
"ہاں یہ ہی وہ رات والا بے وقوف" حور نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"آپ لوگ یہاں کسی پیشنٹ کے ساتھ ہیں "اس نے نیا سوال داغا
"جی" حور کی جگہ سویرا نے جواب دیا تھا۔
"اوہ اچھا پیشنٹ آپ کا کیا لگتا ہے" اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو حور اسکی اس قدر دلچسپی سے جنجھلائی وہ بلا جواز ہی اتنا فرینک ہو رہا تھا۔
"کیوں ہم آپ کو کیوں بتائے اور سوالات تو ایسے کر رہے ہو جیسے یہاں کے ڈاکٹر ہو-" وہ تنک کے بولی۔
"وہ بھائی میری امی ایڈمٹ ہے یہاں"سویرا نے مختصر سا جواب دیا۔
"ہممممم" ارحم نے حور کو بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا جو اب دوسری جانب لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
"اچھا چلیں ہوپ سو وہ جلد صحتیاب ہو جائے" وہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"آمین "سویرا اس کی بات پہ مسکرائی تھی۔جبکہ وہ حور پہ ایک بھرپور نظر ڈالتا ہوا کیفیٹیریا سے باہر نکل گیا۔
~~~~~~
"ہیلو حور کیسی ہو "سویرا نے بجھے بجھے لہجے میں پوچھا
"ہاں ٹھیک ہوں کب سے فون کر رہی تھی کہاں تھی "
"کچھ نہیں بس ویسے ہی طبعیت ٹھیک نہیں"
"کیا ہوا تمہیں تمہاری آواز اتنی بھاری کیوں ہو رہی ہے تم روئی ہو کیا، کیا ہوا ہے سویرا؟"
"نہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا"
"جھوٹ ،جھوٹ بول رہی ہو نا "
"نہیں پاگل تم بتاو کیا ہوا "
"میں وہاں آ جاوں گی اور پھر تمہیں پتہ ہے میں راشدہ آنٹی کو چھوڑنے والی نہیں ہوں اس لیے آرام سے بتا دو کیا بات ہے۔"حور کہ اس طرح کہنے پہ سویرا کے منہ سے سسکی نکلی تھی جس پہ اس نے اپنا ہاتھ رکھ کر روکنا چاہی تھی آنکھیں مسلسل آنسوو بہا رہی تھی۔
"ووہ ح حور بابا نے راشدہ آنٹی کو کہا ہے کہ میرے لیے کوئی معقول رشتہ دیکھ کر میری شادی کروا دیں "وہ اب رونے کے درمیان حور کو بتا رہی تھی۔
"کیا مطلب یہ کیا بکواس ہے ،تمہاری شادی اتنی جلدی ابھی تو تم صرف انیس سال کی ہو انہیں بیٹھے بیٹھے کیا سوجی"حور کو اپنے حواس جاتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔
"پتہ نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے"
"تم ڈرو نہیں میں کچھ کرتی ہوں مجھ پہ یقین رکھو میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گی جیسا وہ عورت چاہتی ہے "وہ سویرا کی باتیں سن کے اپنی پریشانی بھول چکی تھی اب اسے سویرا کے لیے ڈر لگ رہا تھا مگر وہ اس طرح کسی کو اسکی زندگی برباد نہیں کرنے دے سکتی تھی وہ اس طرح اپنی چھوٹی بہن کو کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننے دے گی وہ خود سے اس بات کا عہد کر چکی تھی۔ وہ فون ایک طرف رکھتی سوچتے ہوئے اب پورے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔
~~~~~~~
آج ساحر سے لاکھ ضد کرنے کے بعد بھی وہ اسے حور کے پاس نہیں لے گیا تھا اور ارحم سے نکاح کے فیصلے کے بعد تو اسکا دل چاہ رہا تھا وہ ارحم نامی شخص کا اپنے ہاتھوں سے قتل کر دے وہ کیوں آیا تھا اس کی زندگی میں کہاں وہ ہمیشہ خوش رہنے والی اور کہاں وہ عجیب مغرور اور ضدی انسان اس کا دل چاہا تھا چیخ چیخ کر دہائی دے کہ وہ ارحم آفندی سے نفرت کرتی ہے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی اسی لیے بنا کچھ کہے وہ اپنے باپ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی اسکی زندگی میں اور بھی کئی مسائل تھے۔اسے اگر اب کسی کی فکر تھی تو وہ سویرا تھی۔وہ جیسے ہی کمرے کے دروازے تک پہنچی تو محسن صاحب نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
"ابا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی "
"ہاں کہو کیا بات ہے"وہ کمرے میں اکیلے تھے جسے حور نے غنیمت جانا اور بات شروع کر دی۔
" وہ ابا بات یہ ہے کہ پھوپھا سویرا کے لیے رشتہ تلاش کر رہے ہیں اور انہوں نے اس سارے معاملے کا اختیار راشدہ آنٹی کو دے دیا ہے آپ تو جانتے ہیں کے وہ اس سے کتنی نفرت کرتی ہیں وہ تو بس چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بس وہ سویرا سے جان چھڑوا لے۔"
"ہاں تم کہتی تو بلکل ٹھیک ہو مگر وہ اسکا باپ ہے وہ خود بھی کچھ جانچ پڑتال کرے گا"۔
"آہنہہ، نہیں بابا انہیں بس وہی نظر آتا ہے جو راشدہ آنٹی انہیں دیکھانا چاہتی ہیں"۔وہ اپنے باپ کو حقیقت سے روشناس کروا رہی تھی۔
"مگر میں سمجھ نہیں پایا کہ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔" انہوں نے نا سمجھی سے حور کو دیکھا۔
"بابا وہ میں چاہتی ہوں، آپ سویرا کا رشتہ لینے جائے وہاں انکے گھر"حور نے ڈرتے ڈرتے اپنے دل کی بات کہہ دی
" مگر حور " محسن صاحب نے اب کی بار حیرت سے حور کی جانب دیکھا۔
" بابا وہ آپ کی اکلوتی بہن کی بیٹی ہے کیا آپ اس کے لیے اتنا نہیں کر سکتے۔"
"نہیں حور میں انکار نہیں کر رہا مگر ساحر "
"بابا آپ انکی فکر مت کریں میں انکو منا لوں گی۔"
"اچھا میں سوچتا ہوں کچھ "
"نہیں بابا آپ کو سویرا کی خاطر یہ کرنا ہو گا میں اب اسے مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی"۔ وہ اب کی بار آنکھوں میں آنسو لیے کہہ رہی تھی۔
"تم فکر مت کرو" وہ اس کے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ حور کو سکون ملا تھا اسکا باپ ہمیشہ کی طرح اسکا مان رکھ لے گا اسے اس بات کا یقین تھا مگر ساحر بس اسے منانا مشکل تھا۔ مگر حور نے بھی سویرا کو اس مصیبت سے نکالنے کی قسم کھائی تھی اسے کسی طرح سویرا کو اس مصیبت سے نکالنا تھا۔وہ یوں اسکی زندگی برباد ہوتی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
~~~~~~سویرا کمرے میں بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی جب آئمہ (اسکی سوتیلی بہن) اسے بلانے آئی تھی۔
"سویرا "
"ہاں"
"تمہیں امی بلا رہی ہے جلدی بات سنو کچھ کام ہے انہیں "
"ہاں آ رہی ہوں" وہ اس کے پیچھے کچن میں گئی تھی جہاں کام والی نے ٹرالی لوازمات سے بھری ہوئی تھی اس نے ایک نظر اس ٹرالی پہ ڈالی اور ایک بار پاس کھڑی راشدہ پہ جو ترتیب سے چیزیں رکھوا رہی تھی۔
"جی آنٹی"
"جلدی سے یہ ٹرالی باہر لے آو سویرا باہر کچھ لوگ تمہیں دیکھنے آئے ہیں" وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی جبکہ سویرا اس کے لفظوں پہ ششدر رہ گئی تھی کیا راشدہ کو اس کی شادی کی اتنی جلدی تھی ابھی دو دن پہلے ہی تو اس کے باپ نے اسے رشتہ دیکھنے کا کہا تھا۔اس کا حال کچھ ایسا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں مگر وہ ناچاہتے ہوئے بھی سر پہ ڈوپٹہ برابر کرتی ٹرالی تھامے باہر کی جانب چل دی۔انسان اپنی تقدیر کو جتنا مرضی رد کر دے اسے چارو ناچار اسے تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔
~~~~~~~
ساحر حور سے ملنے کیلیے آیا تھا اس کے کمرے میں جھانکا تو حور نے اپنے ہونٹوں پہ پھیکی مسکراہٹ سجائی۔
"آ جائے بھائی"
"ہمممم" وہ اسکے برابرمیں آ بیٹھا تھا
"حور تم اس رشتے سے خوش ہو نہ "ساحر نے بنا بات کو گھومائے پھرائے مدعے کی بات کی تھی
"بھائی میرے خوش نا خوش ہونے سے کونسا ابا اپنا فیصلہ بدلے گے۔"
"تو کیا تم خوش نہیں ہو"
"نہیں "
"لیکن حور اس رشتے میں مسئلہ کیا ہے۔"
"بھائی میں فقط ایک شرط پہ یہ نکاح کروں گی۔"
"کیسی شرط"
"آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا "
"کیسا وعدہ حور "
"پہلے وعدہ کریں کہ میں جو کہوں گی آپ وہ پورا کریں گے۔"
"ہاں وعدہ چلو بتاو کیا چاہیے"
"بھائی میں چاہتی ہوں آپ سویرا سے نکاح کر لے "
"یہ کیا کہہ رہی ہو حور" وہ سختی سے بولا گویا وہ اپنے حواس کھو بیٹھی ہو۔
"جی میں وہی کہہ رہی ہوں جو آپ نے سنا ہے سویرا سے نکاح کر لے"
"ہر گز نہیں "وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا
"بس پھر ایسا کریں ابا کو بھی منع کر دے اس رشتے سے میں ہر گز اس ارحم سے شادی نہیں کروں گی "
"دیکھو حور اگر تم مجھ سے سودا کرنا چاہ رہی ہو تو یہ نہایت غلط ہے میں تمہاری خاطر اپنی خواہشات کا گلہ نہیں گھونٹ سکتا۔میں کسی کو پسند کرتا ہوں اور سویرا وہ تو بلکل میری بہنوں جیسی "سویرا نے بیچ میں اسکی بات کاٹی
"دیکھے بھائی بہنوں جیسی کچھ نہیں ہوتا یا تو بہن ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اور میں اب اسے مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مان جائے ورنہ"
"کیا ورنہ "
"ورنہ میں عین نکاح کے دن انکار کر دوں گی مجھ سے کوئی بعید مت رکھئیے گا۔"ساحر دم سادھے اب اپنے سے دو سال چھوٹی بہن کو دیکھ رہا تھا جو اس سے اسکی محبت کی قربانی مانگ رہی تھی اس سے اچھا تھا وہ ساحر سے اسکی جان مانگ لیتی مگر جو وہ مانگ رہی تھی ساحر کے پاس اسے دینے کے لیے وہ نہیں تھا اور ایسا آج پہلی بار ہوا تھا۔ ساحر نے کرب سے آنکھیں میچیں اور بڑے بڑے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔جبکہ حور وہی سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھ گئی تھی۔
~~~~~
وہ آج ہسپتال نہیں آئی تھی بارہ بجے اس نے کیفیٹیریا میں بھی انتظار کیا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھی وہ واپس جا رہا تھا جب سامنے سے شلوار قمیض میں ملبوس وہ معصوم چھوٹی لڑکی ضرور اسے نظر آئی تھی۔
"اسلام علیکم ،وہ، کیسی ہے آپ" ارحم نے بات کرنے کے بہانے بات بنائی۔
"جی بھائی میں ٹھیک ہوں آپ بتائے "
"ہاں میں بھی ٹھیک ہوں" وہ بظاہر تو کہہ رہ تھی وہ ٹھیک ہے مگر وہ چہرے سے بے چین لگ رہی تھی۔
"کیا ہوا چھوٹی لڑکی کوئی مسئلہ ہے" اس نے سویرا کے ہاتھ سے دواوں کی پرچی لیتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکرائی۔
"میرا نام سویرا ہے اور وہ میں دوا لینے گئی تھی مگر وہاں رش ہی بہت زیادہ ہے اسی لیے حور کو لینے جا رہی تھی۔"
"اچھا ٹھہرو، میں چلتا ہوں" وہ کہتے ہی باہر کی جانب چل دیا۔ اور سویرا کو ساری دوا دلا کر ہی لوٹا تھا جب کے سویرا اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر وہ سب لوگ اس کو اتنے آرام سے کیوں دوا دے رہے تھے جبکہ باقی لوگ کب سے وہاں لائنوں میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔
"اچھا سنو وہ کہاں ہے"
" وہ کون "
"تمہاری بہن "
"حور "
"ہاں حور "وہ اسکا نام دہراتے ہوئے زیرِ لب مسکرایا۔
"وہ تو اندر کمرے میں ہے اماں کے پاس "
"اچھا چلو پھر "وہ اسے کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔جہاں حور افشین کو بیٹھی کھانا کھلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔مگر افشین بیگم کی حالت اتنی خراب تھی کہ نا کچھ کھایا جاتا تھا نہ ہی پیا۔وہ سویرا کے ساتھ چلتا ہوا اس تک پہنچا۔ تو افشین بیگم مسکرائی۔
"کیسی ہیں آپ محترمہ "
"ہاں جی ڈاکٹر صاحب میں ٹھیک ہوں۔" وہ سنبھلتے ہوئے بولی۔
"اور مس آپ کیسی ہے" وہ افشین بیگم کی دوائیاں دیکھتے ہوئے حور سے پوچھ رہا تھا جو مصروف سی افشین بیگم کا کھانا سمیٹ رہی تھی ارحم کے کہنے پہ سویرا نے اسے کوہنی سے ٹہوکا مارا اور پھر سرگوشی کی "تم سے پوچھ رہے ہیں"
"جی ٹھییک ہوں" وہ لفظ ٹھیک پر زور دیتے ہوئے بولی تھی۔ تو کیا وہ یہاں کا ڈاکٹر تھا۔ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ خود سے بڑبڑائی جب ارحم افشین بیگم سے مخاطب ہوا۔
"ویسے یہ آپ کی کیا لگتی ہیں ماں جی "
"یہ ، "وہ حور کا ہاتھ محبت سے تھامے ہوئے بولی
"یہ میری بھتیجی ہے ڈاکٹر صاحب یہ مجھے اپنی بیٹی جیسی عزیز ہے "
"ہممممم صیح اور یہ چھوٹی بچی "
"جی یہ میری بیٹی ہے "وہ مسکرائی تھی حور نے فقت اتنا محسوس کیا تھا۔اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا ایک نرس اس کے پاس پہنچی" ڈاکٹر ارحم آپ کو ڈاکٹر جواد بلا رہے ہیں۔"
" ڈاکٹر ارحم ،ہنہہ تو کیا یہ واقعی ڈاکٹر ہے" وہ اب اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔
"بہت اچھا بچہ ہے یہ "افشین بیگم مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔جس پہ حور نے نفی میں سر جھٹکا۔
~~~~~~
سویرا کمرے میں بیٹھی تھی جب اسے اپنے کندھے پہ کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ اس نے سر گھما کر دیکھا تو اسکے پیچھے حور کھڑی تھی مگر وہ چاہ کر بھی اس پل اپنے چہرے پہ مسکراہٹ اور اطمینان کا اظہار نہیں کر پائی۔
"کیا ہوا سویرا "
"کچھ نہیں تم کب آئی۔"
"ابھی جب تم کسی اور دنیا میں تھی۔"
"حور" وہ کہتے ہی حور سے لپٹ گئی
"کیا ہوا ہے سویرا اس طرح کیوں رو رہی ہو "وہ فکر مندی سے بولی۔
"ححور آج کچھ لوگ آئے تھے مجھے دیکھنے آنٹی نے میرے سے پوچھے بغیر انہیں ہاں بھی کر دی ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے حور میں نہیں کرنا چاہتی کسی سے شادی"۔وہ اپنی بات کے آخر میں پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
"شش کچھ نہیں ہو گا اور جب تک میں زندہ ہوں سویرا کے ساتھ کوئی کچھ برا نہیں کر سکتا"۔وہ اس کی کمر سہلاتے ہوئے اسے حوصلہ دے رہی تھی جسکی رونے کے باعث ہچکی بندھ گئی تھی۔
"افف سویرا اب بس بھی کرو تمہیں چپ کراتے کراتے میرا گلا خشک ہو گیا ہے اور تمہیں اتنی توفیق نہیں ہے کہ ایک گلاس کوکاکولا ہی پلا دو۔"وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
"اوہ سوری" وہ قدرے سنبھل چکی تو اسے شرمندگی نے آن گھیرا۔
"ٹھہرو میں ابھی تمہارے کھانے کے لیے کچھ لاتی ہوں تم فکر مت کرو۔"
"ہاں مگر پینے کے لیے صرف کوک" اس نے جاتی ہوئی سویرا کے پیچھے سے بانک لگائی۔وہ کمرے میں اکیلی کھڑی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جب مظہر کمرے کے باہر سے گزر رہا تھا جب ہی اندر نظر پڑنے پہ کمرے میں داخل ہوا۔
"اوہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں"
"ہاں اور گھٹیا لوگ وہی جمع ہو گئے ہیں"وہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ باہر نکل گئی تھی۔ مظہر کا تزلیل کے باعث چہرہ لال بھبوکا ہوا تھا۔اس نے غصے سے پاس پڑی کرسی کو پاوں مار کر پرے پھینکا۔ "تمہاری اتنی ہمت"وہ خود کلامی کرتا گھر سے باہر نکل گیا۔
~~~~~~~
"کیا حال چال ہے ڈئیر "سویرا کچن میں کھڑی کباب بنا رہی تھی جب مظہر کا خالہ زاد بھائی کچن میں اسکے سر پہ کھڑا کہہ رہا تھا
"ججی بھا ئ "وہ ڈر کر مڑی تو وہ شخص اس پر مزید جھکا۔اس نے سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کی مگر مقابل نے اسکا راستہ روکا۔ وہ اب اس پہ مکمل طور پہ جھکا ہوا تھا جبکہ سویرا اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں راشدہ بیگم کچن میں داخل ہوئی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں "وہ چیخی تو اس شخص نے جھٹ سے سویرا کے دبوچے ہوئے ہاتھ خود سے دور کیے اور ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا
"وہ خ خالہ یہ لڑکی مجھے جان بوجھ کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔"سویرا نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا جو اب اطمینان سے ایک طرف کھڑا شاطرانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔وہ سویرا کا بازو پکڑے اسے کھینچتی ہوئی لاونج میں لائی تھی اور لا کر نفرت سے زمین پہ پٹخا تھا جہاں محسن صاحب اور حور سمیت گھر کے سب لوگ موجود تھے سوائے مظہر کے۔
"میں نہ کہتی تھی یہ لڑکی بدکردار ہے پوچھو اس سے کیا گل کِھلا رہی تھی کچن میں"
"ن نہیں بابا میں نے ایسا کچھ نہیں کیا یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔"وہ روتے میں بولی
"مگر راشدہ ہوا کیا ہے "فراز صاحب نے حیرت سے پوچھا
"میں نے اسے قمر کے ساتھ ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ میں بیان بھی نہیں کر سکتی، استغفراللہ توبہ توبہ وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔"
"مجھے یقین ہے راشدہ آنٹی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے" حور نے راشدہ کو دیکھا جو فورا بولی
"نہیں مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی یہ ہے ہی ایسی۔"وہ نفرت بھرے لہجے میں بولی۔
"خبردار راشدہ صاحبہ اگر اب آپ نے میری بھانجی کو مزید ایک لفظ بھی کہا، میں جانتا ہوں میری بہن کی بیٹی کبھی ایسی نہیں ہو سکتی"
"ہنہہہ آئے بڑے" وہ بڑبڑائی پھر فراز صاحب سے گویا ہوئی۔
"میں اب اس کو مزید اپنے گھر میں نہیں دیکھ سکتی جلدی اس کا کوئی بندوبست کریں۔"
"فراز صاحب میں چاہتا ہوں سویرا اور ساحر کا نکاح کل حور کے نکاح سے پہلے ہو "محسن صاحب نے راشدہ کی بات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فراز صاحب سے کہا۔
"جی ضرور "فراز صاحب نے فورا ہامی بھری تھی۔جبکہ وہاں کھڑی سویرا سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب محسن صاحب اسکی جانب بڑھے تھے۔ اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھے وہ کہہ رہے تھے۔
"اپنا سارا سامان سمیٹو اور حور کے ساتھ جلدی باہر آ جاو میں انتظارکر رہا ہوں۔"حور اسے اپنے نکاح کے لیے لینے آئی تھی مگر وہ بھی اپنے باپ کی بات پہ حیران ہوئی تھی۔ سویرا کی حالت عجیب سی تھی آنکھوں سے کچھ دیر پہلے بہنے والے آنسوو تھم چکے تھے اور آنکھیں بے رنگ جب کہ چہرہ ابھی بھی زرد ہو رہا تھا۔سارے اپنے ایک لمحے میں بیگانے ہو گئے تھے۔یہاں تک کہ سگا باپ بھی۔
~~~~~~~
اسکے جانے کے بعد مظہر گھر لوٹا تھا گھر میں خاموشی کے باعث وہ آئمہ کے کمرے کی جانب گیا جہاں وہ بیٹھی کسی سے فون پہ بات کر رہی تھی مظہر کو دیکھ اس نے پل میں موبائیل ایک طرف کیا۔
"کیا ہوا اتنی خاموشی کیوں ہے بابا کہاں ہے"
"کچھ نہیں بس وہ "
"ہونا کیا ہے، وہ منحوس گھر سے بھاگ گئی اپنے مامو کے لڑکے کے ساتھ "
"کون سویرا "اس نے حیرت سے پوچھا
"ہاں وہی کم بخت "
"مگر امی آپ نے ان کے گھر جا کر اس کم زات کو ٹھیک کرنا تھا ناں اور اس ساحر کے بچے کو تو میں نہیں چھوڑوں گا "
"نہیں اب کوئی بات نہیں ہو گی تمہارا باپ جائے گا کل اس کے نکاح میں آئی سمجھ۔" مظہر کا تو یہ بات سن کے خون ہی کھول اٹھا تھا وہ غصے میں کمرے سے باہر نکل گیا۔اس کے جانے کے بعد راشدہ نے آئمہ کی جانب مڑتے ہوئے سرگوشی کی تھی
" خبردار جو کسی نے کچھ اور کہا سب کو یہی کہنا ہے کہ وہ اپنے ماموں زاد کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔"آئمہ نے تاسف سے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔
نا جانے یہ ہمارے معاشرہ میں کیا روایت ہے کہ ایک بھائی خود تو سب کچھ کر سکتا ہے مگر جب باری اسکی بہن کی آتی ہے تو اسکی سوئی ہوئی غیرت اس وقت کہاں سے جاگ جاتی ہے ان کا خون غیرت کے نام پہ اس وقت کیوں ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے حلانکہ یہی مرد اپنی باری میں خود کو اس کے برعکس ثابت کرت ہوئے کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ بازاروں میں گھوم پِھر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے یہ سب وہ خود پہ فرض کروا کر آئے ہو۔ اسلام میں تو مرد اور عورت کے لیے برابر کے اصول و ضوابط نافذ کئیے گئے ہیں۔
~~~~~~~~
شام آفندی ہاوس کے دروازے پر پر پھیلائے کھڑی تھی ان کا بڑا سپوت خود کو شیشے میں دیکھنے میں مگن تھا خوشی چہرے کے ہر عضوء سے چھلک رہی تھی۔ پاوں میں شیروانی کے ساتھ کا ہم رنگ کھسا پہننے کے لیے وہ کمرے میں موجود صوفے پہ بیٹھ کر جھکا تھا جب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ماہم ہوا کے گھوڑے پر سوار اس کے پاس پہنچی تھی
" بھائی جلدی کریں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ کےسسرال والے کب سے کالز کر رہے ہیں۔"وہ ایک سانس میں ساری روداد سنا چکی تھی۔ارحم بے ساختہ مسکرایا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
~~~~~~~
ساحر نکاح کی تیاریوں میں مصروف تھا جب محسن صاحب نے اسے بلوایا تھا۔
"جی ابو "وہ مصروف انداز میں بولا
"بیٹا ساحر مجھےتم سے کچھ بات کرنی ہے "
"جی بابا کہیے" وہ فون میں مصروف تھا۔جب محسن صاحب نے بات کا آغاز کرنے کے لیے گلا صاف کیا مگر کچھ بولے نہیں
"کیا ہوا بابا" وہ اب محسن صاحب کو دیکھے پوچھ رہا تھا۔
"بیٹا آج میری خاطر تمہیں اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ لینا ہو گا تمہارا باپ زبان دے چکا ہے۔تمہیں میری زبان کا پاس رکھنا ہو گا۔"
"مگر بابا بات کیا ہے" پھر اچانک حور کی بات نے دماغ میں جھماکا مارا تھا۔ وہ بڑبڑایا۔
"بابا حور کو کچھ ہوا ہے"
"نہیں نہیں اسے کچھ نہیں ہوا وہ آج تمہارا اور سویرا کا نکاح ہے"۔
"مگر بابا میں"
"دیکھو ساحر تم نے ہمیشہ اپنی من مانی کی ہے میں نے تمہیں کبھی منع نہیں کیا مگر آج میری زبان کی لاج رکھ لو میں فراز کو زبان دے آیا ہوں وہ بچی بہت معصوم ہے میں یوں اس کو در در کی ٹھوکریں کھاتا نہیں دیکھ سکتا۔" وہ ہاتھ جوڑے ساحر کے سامنے کھڑے تھے ساحر نے ایک سرد آہ بھری تھی اور ہاتھ اٹھا کر باپ کے ہاتھوں کو تھام لیا۔زندگی انسان سے وہ فیصلے بھی کرواتی ہے جو وہ اپنے لیے کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
~~~~~~
حور کی رخستی کا وقت ہو گیا تھا آج انصاری ولا میں دو نکاح ہوئے تھے مگر سٹیج پہ فقت ایک دلہن بیٹھی تھی جس کی نظریں مسلسل کسی کی تلاش میں تھی۔ جبکہ ارحم مسکرا رہا تھا۔ اسکی خوشی دیدنی تھی وہ نیلی آنکھوں والی اب اسکی دسترس میں تھی اسکی بنی بیٹھی تھی۔ اس کے دماغ میں حور کے الفاظ کا جھماکا ہوا تھا۔
"یہ ہمیشہ آپ کا خواب رہے گا کبھی پورا نہ ہونے والا خواب" اس نے مسکرا کر سر جھٹکا۔کئی لوگ حور کو سٹیج سے نیچے اترنے میں میں مدد دے رہے تھے مگر وہ مسلسل کسی کو ڈھونڈ رہی تھی۔
"کسے ڈھونڈ رہی ہو حور" زرین بیگم نے اسکی نظروں کو بے چینی سے گھومتے دیکھا تو پوچھ بیٹھی۔
"امی سویرا وہ کہاں ہے۔"
"ٹھہرو بلواتی ہوں "اتنے وہ کچھ لڑکیوں سے سویرا کو بلانے کا کہہ رہی تھی۔وہ جلدی اسکی جانب آتی نظر آئی تھی۔
"کیا ہوا حور "وہ مسکرا کر اسکی جانب بڑھی جبکہ حور جانتی تھی وہ اس سے خفا ہے وہ بنا کچھ کہے اس کے گلے لگ گئی اور یونہی وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹی کئی پل روتی رہی ان کو دیکھ کر پاس کھڑے ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے مگر ان دونوں کا پیار ہی ایسا تھا لاکھ ناراضگی سہی مگر وہ ایک دوسرے کے بغیر کہاں رہ پاتی تھی۔
"مگر افسوس آخر زندگی ہمیں ان کے بغیر بھی جینا سیکھا دیتی ہے جن کے بغیر ہمیں ایک پل سانس لینا بھی محال لگتا ہے۔ "ان سے الگ ہونے کے بعد وہ ساحر سے ملی تھی اور جاتے جاتے بھی سب کو سویرا کا خیال رکھنے کی تعقید کرنا نہیں بھولی تھی۔
~~~~~~
سب لوگوں کے جانے کے بعد سویرا کو ساحر کے کمرے میں لا کر بیٹھا دیا گیا تھا اور وہ اپنے پچھلے دنوں کو یاد کر کے ایک بار پھر سے رو دی۔ اس نے ایسی زندگی کی خواہش تو کبھی نہیں کی تھی مگر حقیقت کو تسلیم کرنا بھی اسکی مجبوری تھی اس نے سختی سے بستر کی چادر کو ہاتھوں میں بینچا اور ایک بارپھر بے اختیار ہو کر روتے ہوئے بستر پہ سر گرا کر رہ گئی"کیوں ہوں میں اتنی بے بس کیوں" وہ خود سے ہم کلامی کر رہی تھی جب ساحر کمرے میں داخل ہوا تھا۔ وہ اسی حالت میں سر بستر پہ گرائے کہہ رہی تھی جب ساحر نے زور سے دروازہ بند کیا تاکہ وہ اسکی موجودگی محسوس کر سکے۔مگر اس میں حرکت نہ محسوس کر کے وہ اس کی جانب بڑھا۔
"سویرا۔۔۔" اس نے اسے پکارا مگر جواب نہ پا کر وہ اسکی جانب لپکا۔ اسکا سر اٹھایا تو وہ زرد ہو رہی تھی نیم بے ہوشی میں ہونے کی وجہ سے وہ بس ساحر کی ایک جھلک دیکھ پائی تھی۔ساحر مسلسل اس کا چہرہ تھپ تھپا رہا تھا اسے اسکی حالت پہ ترس آیا تھا۔ پاس پڑا پانی گلاس میں لے کر چند قطرے اسکے چہرے پہ پھینکے پھر ڈاکٹر کو فون ملانے لگا۔ سارا دن کچھ نا کھانے کی وجہ سے اسکا بی پی لو ہو گیا تھا۔ زرین بیگم اسکے پاس بیٹھے اسے کھانا کھلا رہی تھی جبکہ ساحر اب جاچکا تھا۔محسن صاحب بھی وہی بیٹھے اسے فکرمندی سے تک رہے تھے جو بلکل نڈھال تھی۔
~~~~~~~
سیاہ رات کا اندھیرا ہر طرف پھیلا تھا حور کی آنکھ اچانک پیاس لگنے کے باعث کھلی تھی اس نے افشین کو دیکھنے کی غرض سے انکی جانب دیکھا تو اسکی بے ساختہ چیخ ہوا میں گونجی تھی جس سے سویرا ہڑبڑا کر اٹھی اور اسکی پھٹی پھٹی آنکھوں کو دیکھ کر اسنے افشین بیگم کو دیکھا جو خون میں لت پت پڑی تھی مگر پھر حور کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے سویرا کو جو سمجھ آئی تھی وہ اس پہ یقین نہ کرتے ہوئے بے اختیار ہو کر افشین کو ہلا رہی تھی جبکہ حور اسے سنبھالنے کے لیے بڑھی مگر وہ بس اپنی ماں کو ہوش دلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی
"بس کردو سویرا انہیں تکلیف ہو رہی ہے" اس نے سختی سے کہا تو سویرا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا
"نہیں حور وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی"
"ہاں سویرا وہ چلی گئی ہیں تمہیں ،مجھے ہم سب کو چھوڑ کر"
" نہیں حور مت کہو ایسے "وہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے چیخ رہی تھی اسکی چیخیں پورے وارڈ میں پیھیلی ہوئی تھی۔اسکی چیخوں سے کئی لوگ بیدار بھی ہو گیے تھے تب ہی وہاں راونڈ کرتا ہوا ارحم بھی اندر کی جانب لپکا تھا۔
کیا ہوا ہے انہیں وہ سامنے سے عورتوں کو ہٹاتے ہوئے پاس کھڑی عورتوں سے پوچھ رہا تھا جو سویرا کو سنبھال رہی تھی حور بھی وہی کھڑی بے یقینی کے عالم میں آنکھوں سے خاموش آنسوو بہا رہی تھی۔اسکا چہرہ اس وقت ڈھکا ہوا نہیں تھا اور یہ پہلا لمحہ تھا جب ارحم نے اسکو بغور دیکھا تھا وہ واقعی حور تھی آسمان سے اتری کوئی حور۔اس کی ان سمندر جیسی آنکھوں میں آنسوو دیکھ کہ ناجانے ارحم کو کیوں تکلیف ہوئی تھی۔حور وہاں سے ہٹ کر باہر کی جانب چل دی سب گھر والوں کو خبر کرنے کیلیے۔وہ مردہ قدم اٹھا رہی تھی اور ارحم اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔اس نے سویرا کو دکھ سے دیکھا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔
~~~~~~~
ارحم نے کمرے کا دروازہ واہ کیا تو وہ جھٹکا کھا کر پلٹی۔اس کے اس طرح ڈرنے پہ ارحم مبہم سا مسکرایا۔مگر مقابل اب سنجیدہ ہو کر اپنے کام میں مگن ہو گئی تھی۔وہ قدم قدم چلتا اس تک پہنچا تھا۔جو ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر حور کا چلتا ہوا ہاتھ روکا۔
"مجھے دیکھنے تو دو میری حور کیسی لگ رہی ہے" اسکی بات پہ حور نے تھوک نگلا اور جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
"آہاں ،ایسے نہیں کرتے اپنے شوہر کے ساتھ" وہ ایک بار پھر مسکرایا تھا۔وہی دل جلانے والی مسکراہٹ۔وہ جیولری اتارنے کے بعد واشروم کی جانب بڑھنے لگی تھی جب ارحم نے اسے اپنی جانب کیھنچا۔
"ایسی بھی کیا ناراضگی بیگم صاحبہ کہ اب آپ مجھے اپنی آواز سنانے کے لیے بھی تڑپائے گی۔" اس نے حور کی جھکی لمبی پلکوں کو چھوا تو حور نے جھکی پلکیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا جو آج قریب سے ان نیلی جھرنے جیسی آنکھوں کو تک رہا تھا۔ "خوبصورت" بے ساختہ اسکے منہ سے وہ الفاظ نکلے تھے۔حور نے کلائی چھڑوانی چاہی مگر مقابل کی گرفت سخت تھی۔ وہ نظریں نیچی کیے پھر سے کوشش کرنے لگی۔ اس نے جھک کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا تو حور نے اپنی آنکھیں میچیں۔ وہ اپنی جگہ پہ ساکت ہو گئی تھی۔ جی بھر کے دیکھنے کے بعد ارحم نے آرام سے گرفت ڈھیلی کیئے اسکی تھامی ہوئی کلائی چھوڑ دی۔
~~~~~~~
وہ کالج کے باہر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی جب اسکے سامنے کیواسکی بائیک رکی تھی۔وہ شخص بائیک سے اتر کر اسکی جانب بڑھا تھا۔
"کیسی ہو حور "
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں "وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی
"میں وہ،"اس نے الفاظ کھوجنے شروع کئیے۔
"جی "اس نے آئی برو اچکائے
"تمہیں دیکھنے آیا تھا "
"بڑے فارغ انسان ہے آپ، میں تو سمجھی تھی ڈاکٹر لوگ کافی مصروف ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کے مسیحا ہے آپ کو چاہیے آپ ان کی مسیحائی کریں ناکہ یوں آوارہ گردی "
"جی آپ سہی کہہ رہی ہیں لیکن اب ضروری تو نہیں کے ان کی اپنی کوئی زندگی ہی نہ ہو۔"حور نے اسکی بات پہ منہ بنایا اور دوسری جانب دیکھنے لگی۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں"
"نہیں ہر گز نہیں آپ جا سکتے ہیں" اب وہ سختی سے کہتی ہوئی پلٹ گئی تھی۔ارحم نے غصے سے سر جھٹکا۔اسے پہلی بار کسی نے یوں انکار کیا تھا۔
~~~~~~~~
صبح سے ناجانے نمرا اسے کتنی کالز کر چکی تھی مگر وہ جان بوجھ کے اسے اگنور کر رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس سے کیا کہے گا۔ نمرا نے یونیورسیٹی سے ہی کبھی اس سے محبت کا اظہار نہیں کیا تھا یہ تو وہی تھا جو اسے پسند کرتا تھا۔ اور اسے خود سے شادی کی امید بھی اسی نے دلائی تھی مگر وقت نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا۔اس نے تنگ آتے ہوئے سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔ وہ ابھی اسی انداز میں بیٹھا تھا جب نمرا اسکے آفس میں داخل ہوئی۔
"ساحر ۔۔"اسکی آواز پہ اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔
"نمرا تم ، تم کیا کر رہی ہو یہاں"
"تم میری کال کیوں ریسیو نہیں کر رہے تمہیں پتہ ہے مجھے تم سے اتنی اہم بات کرنی ہے۔"
"وہ میں ،اچھا اسے چھوڑو تم بتاو کیا بات ہے۔"
"بابا نے اس رشتے کے لیے ہاں کر دی ہے ساحر اور جمعہ کو میرا نکاح ہے۔"ساحر نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور پھر جھکا لی۔
"ہاں، تو اچھی بات ہے نہ"
"کیا مطلب "اس نےحیرت سے بغور ساحر کو دیکھا جو سر جھکائے بیٹھا تھا
"مطلب تمہیں اپنے ماں باپ کی بات مان لینی چاہیے" وہ سر جھکائے کہہ رہا تھا۔
"یہ تم کہہ رہے ہو ساحر آئی کانٹ بلیو "وہ حیرت سے بولی
"ہاں ،کیونکہ میں نے بھی اپنے گھر والوں کی بات مان کر نکاح کر لیا ہے۔"
"مگر ساحر تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو تم تو "
"دیکھو نمرہ جو قسمت میں تھا وہ ہو گیا ہو سکے تو مجھے معاف "
"بس! خبردار جو اب ایک لفظ بھی کہا تو، تمہیں پتہ ہے تم جیسے لڑکے ہوتے ہی ایسے ہو بس دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتے ہیں شادی کے جھوٹے وعدے اور پھر اپنی یہ سو کالڈ معافیاں آئیندہ مجھے تم سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا "وہ وارن کرتی غصے سے باہر نکل گئی جبکہ ساحر نے اپنے بالوں کو مٹھی کی صورت میں جکڑ رکھا تھا۔ اس نے اس سے پیار کیا تھا۔اس نے غصے سے میز پہ پڑی چیزوں کو زمین بوس کر دیا۔
~~~~~~~
سویرا صحن میں بیٹھی حور کے پرندوں کو تک رہی تھی جو مزے سے اپنا دانہ دنکا چگ رہے تھے۔ اسے شدت سے حور یاد آنے لگی تھی وہاں سب اس سے بہت پیار سے پیش آئے تھے مگر حور وہاں نہیں تھی اسکی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا تھا۔ " کچھ کمیوں کو کوئی پٗر نہیں کر سکتا وقت بھی نہیں وہ خالی رہنے کے لیے ہی بنائی جاتی ہے۔"شام کے پانچ بج رہے تھے اور وہ سر گھٹنوں میں دئیے پرندو کو مسلسل دیکھ رہی تھی۔جب دروازے پہ کھٹکا ہونے پہ اس جانب لپکی۔مگر مقابل کو دیکھ کر فورا سے ایک طرف ہو گئی جو غصے سے بھرا ہوا تھا۔
"بسمل اللہ آ گیا، میرا بچہ "
"جی "وہ کہتے ہی اندر کی لاونج کی طرف بڑھ گیا جبکہ سویرا زرین بیگم کے تختے کے پاس چپ چاپ کھڑی اسکو جاتا دیکھ رہی تھی۔
"سویرا بچے جاو جا کر اسکو پانی کا پوچھو تھکا ماندا آیا ہے "
"جی ممانی "وہ کہتی ہوئی باورچی خانے میں گھس گئی۔
وہ جو کمرے میں موجود صوفے پہ بیٹھا سر گرائے بیٹھا تھا دروازے میں کھڑی سویرا کو ایک نظر دیکھ کر باتھ روم میں گھس گیا۔ سویرا نے پانی کا گلاس وہی صوفے پہ رکھا اور کمرے سے نکل گئی۔ جب وہ واپس کمرے میں لوٹا تو پانی کا گلاس دیکھ کر سر جھٹکا۔
~~~~~~~
وہ چادر سے منہ لپیٹے ایک طرف کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی جب کسی نے اسکا بازو کھنچ کر اسے گاڑی میں بیٹھایا اور خود بھی دوسری طرف بیٹھ کر گاڑی کے دروازے لوک کر دئیے۔ حور نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں کھلا تو وہ چیخ پڑی۔
"کیا بدتمیزی ہے یہ دروازہ کھولے "
"کھولتا ہوں پہلے میری بات آرام سے بیٹھ کر سنو۔"
"مجھے نہیں سننی دروازہ کھولے "
"افف ،لڑکی چپ چاپ بیٹھی رہو۔"اس نے ایک سخت نظر برابر میں بیٹھے ارحم پہ ڈالی تھی۔
"دیکھو حور مجھے نہیں پتہ یہ کب ہوا مگر میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور تم سے شادی بھی کرنا چاہتا ہوں" اسکی بات پہ حور نے اسے ایسا دیکھا جیسا اسکا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو۔
"یہ ہمیشہ آپ کا خواب رہے گا کبھی پورا نہ ہونے والا خواب"۔
"آہنہہ دیکھو حور میں ارحم آفندی ہوں میرا کبھی کوئی خواب ادھورا نہیں رہا تو ہمیشہ کی طرح یہ بھی ضرور پورا ہو گا،مگر فلحال میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کے میں تین سال کے لیے باہر جا رہا ہوں اسپیشلائزیشن کے لیے تو تمہیں بس تب تک میرا انتظار کرنا ہو گا۔"
"کیسا انتظار کیسی شادی آپکا دماغ خراب ہو چکا ہے مسٹر آپ اپنے دماغ کا علاج کراوئے۔"وہ غصے سے چلائی تھی۔
"مس حور ایک بات یاد رکھیے گا ارحم کو ایک بار جو چیز پسند آ جائے وہ بس ارحم آفندی کی ہوتی ہے ، میں پھر اس پہ کسی دوسرے کی نظر بھی گوارا نہیں کرتا ،مائنڈ اٹ!۔"حور اس حیرت سے دیکھ رہی تھی جو سختی سے لب بینچے اپنی بات کئیے گاڑی کے دروازے کو انلوک کر چکا تھا۔
"اب آپ جا سکتی ہیں۔"وہ سنجیدگی سے بولا تو حور ہوش کی دنیا میں لوٹی اور ایک لمحے سے پہلے گاڑی سے اتری تھی اور بھاگتی ہوئی بس میں جا بیٹھی۔ارحم اسے بھاگتا ہوا دیکھ کر بڑبڑایا "کب تک بھاگو گی مجھ سے حور۔"
~~~~~~~~
وہ کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی اپنی سوچوں میں گم تھی جب ارحم اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔اس نے نظروں کا رخ پھیرا ارحم کو ایک نظر دیکھ کر پھر سامنے دیکھنے لگی۔
"مسسز ارحم آپکی والدہ کا فون آیا تھا وہ شام کے کھانے پہ بلا رہی ہیں۔"
"ہممممم" وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولی تو ارحم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے دونوں ہاتھ تھامے
"جلدی تیار ہو جائیے گا مجھے ہوسپٹل بھی جانا ہے نائٹ ڈیوٹی ہے۔"وہ اسکے ہاتھ تھامے محبت سے کہہ رہا تھا۔ حور نے ایک نظر اسکو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔ پھر جھٹکے سے اپنے ہاتھ کھینچتی ہوئی تیار ہونے چل دی۔یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس اندر کھینچا چند پل اسے دیکھنے کے بعد کمرے سے نکل گیا۔
~~~~~~~~
وہ سب کھانے کی میز پہ بیٹھے تھے سویرا تو حور کے آنے سے ہی خوش ہو گئی تھی اور حور بھی خوش لگ رہی تھی۔ وہ دونوں کھانا کھانے کے درمیان باتوں میں مگن تھی ساحر نے مسکراتی ہوئی سویرا کو بغور دیکھا تھا وہ تین دنوں میں آج پہلی بار مسکرائی تھی اور یہی حال حور کا بھی تھا۔ سب لوگ کھانے میں مصروف تھے کھانا مکمل کرتے ہی ارحم جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو زرین بیگم نے حور کو دیکھا جو سویرا کے ساتھ اندر کمرے کی طرف جا رہی تھی انہوں نے حور کو آواز دی۔ حور نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا جو اب نکلنے کے لیے کھڑا تھا۔
"جاو ارحم کو دروازے تک چھوڑ کر آو" حور نے اپنی ماں کو عجیب نظروں سے دیکھا تو انہوں نے اپنے چہرے کے تاثر سخت کیئے۔
"جی۔۔" جس پہ حور نے ماں کو جواب دیا اور ارحم تک پہنچی
"چلیں ارحم ؟۔۔" وہ فرضی مسکرا کر پوچھ رہی تھی تین سال بعد وہ آج ارحم سے پہلی بار اسکا نام لے کر مخاطب ہوئی تھی وہ بھی کسی اور کے کہنے پہ خیر،ارحم نے اپنی سوچ کو جھکتے ہوئے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔دونوں باہر صحن میں پہنچے تو حور نے اپنے قدم دروازے سے کچھ فاصلے پہ روک لیے ارحم نے پلٹ کر اسکو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہی تھی۔
"میں صبح سات بجے لینے آووں گا تیار رہنا۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو حور نے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ مسکرایا اور بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا حور نے اسے ناسمجھی سے دیکھا وہ اسکے ہاتھ پہ بوسہ دے کر پلٹ گیا اور حور اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔"کیا ہے یہ شخص" وہ سوچتی ہوئی اندر کی جانب چل دی۔
~~~~~~~~~
وہ دونوں چائے کے کپ لیے چھت پہ زمین پر بیٹھی تھی۔ سویرا چائے کا کپ ہاتھوں میں تھامے سامنے آسمان کو تک رہی تھی جب حور نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"سویرا تم خوش ہو ناں "
"مجھے نہیں پتہ حور، میں نہیں جانتی کہ میں خوش ہوں یا نہیں۔"وہ سانس لینے کو رکی تھی ایک گہرا سانس ہوا میں چھوڑتے ہوئے پھر سے بات کا آغاز کیا۔
"ہاں، مگر میں ایک چیز ضرور جانتی ہوں یہ جو ہوا ہے نہ اس سب سے ساحر خوش نہیں ہیں وہ کسی اور کو چاہتے ہیں شاید تم سب نے مل کے مجھے راشدہ آنٹی سے بچانے کے لیے زبردستی ان پہ مسلط کر دیا ہے۔ میں ان کے پیروں کی وہ زنجیر ہوں جسے وہ چاہ کر بھی اتار کے پھینک نہیں سکتے میں ان کے قابل نہیں ہوں، میں ان پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی حور اگر وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتے تو میں چلی جاوں گی۔"
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ یہ کیا کہہ رہی ہو ؟کہاں جاو گی؟ سویرا تم" حور نے دکھ اور حیرت سے پوچھا تھا۔
"کہیں بھی مگر میں یوں خود کو کسی کی زندگی میں زبردستی روک نہیں سکتی" بات کے آخر میں اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا حور نے بے اختیار اسے خود سے لگایا تھا۔سیڑھیوں پہ کھڑے ساحر نے تھوک نگلا تھا۔وہ اسکا ہر لفظ سن چکا تھا اسکی باتوں سے دل میں کہیں ٹیس اٹھی تھی۔وہ سچ کہہ رہی تھی کڑوا سچ ۔وہ ایک اہم کال کرنے آیا تھا مگر وہی سے پلٹ گیا۔
~~~~~~~
سویرا سہ پہر کے وقت صحن میں موجود سیڑھیوں پہ پرندوں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب زری بیگم نے اسے بغور دیکھا بال چٹیا سے نکلے ہوئے تھے چہرہ بے رنگ تھا ،کندھے پہ بڑا سا ڈوپٹہ جھول رہا تھا سادہ سی عام رنگ کی قمیض شلوار پہنے الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔جب زرین بیگم نے اسے آواز دی تو وہ فورا اٹھ کر انکے پاس آ کھڑی ہوئی۔
"یہاں بیٹھو سویرا میرے پاس اور اب جو میں سمجھاو اسے دیھان سے سننا اور سمجھنا ٹھیک ہے" وہ پیار سے اسے کہہ رہی تھی سویرا فورا ان کے پاس وہی تختے پہ بیٹھ گئی۔
دیکھو حور جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب تم اس گھر کی بہو اور ساحر کی بیوی ہو تم پہ فرض ہے کہ تم اسکے کھانے پینے اور اسکا خیال کرو۔ اس کی خوشی کا خیال رکھو شوہر کو اپنی بیوی سجی سنوری بہت اچھی لگتی ہے اور تم خود کو دیکھو کہیں سے لگتا ہے کہ تم چند روز پہلے کی دلہن ہو میں مانتی ہوں اس وقت حالات ایسے تھے مگر اب تمہیں اس رشتے کو تسلیم کر کے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ "انہوں نے پیار سے اسکا ہاتھ تھامے اسے سمجھایا اور اس کے سر پہ پیار دیا۔
"جاو جاکے اس کے آنے کی تیاری کرو "وہ کہتے ہی اندر کی جانب چل دی۔
~~~~~~~
حور صوفے پہ بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی جب ارحم کمرے میں داخل ہوا تھا صبح کے آٹھ بج رہے تھے جب وہ نائٹ ڈیوٹی سے لوٹا تھا اس نے مسکرا کر حور کو دیکھا جو باہر دیکھنے میں مگن تھی۔وہ آتے ہی صوفے پہ ڈھے گیا اور گردن موڑے اپنی شریکِ حیات کو دیکھا جو اب اٹھ کر جانے والی تھی۔
"حور" اس نے جاتی ہوئی حور کی کلائی تھامی جس پہ حور نے اسے غصے سے دیکھا۔اس نے کھینچ کر حور کو واپس صوفے پہ بیٹھا دیا۔
"حور کیا یہ سزا ختم نہیں ہو سکتی کیا تم میرے ساتھ ایک خوشگوار زندگی نہیں گزار سکتی کیا تم مجھے معاف نہیں کر سکتی۔"
"نہیں "اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
" کیوں حور کیوں میری خطا کیا ہے بس یہ کہ میں نے تم سے محبت کی ہے۔"ارحم اسکی آنکھوں میں دیکھتےہوئے بولا۔
"نہیں محبت کرنا جرم نہیں ہے مگر، آپ نے جبرن مجھ پہ اپنی محبت مسلط کی ہے مسٹر ارحم جبکہ میں آپ سے محبت نہیں کرتی اگر آپکے اور میرے درمیان میرے متعلق کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف ایک ہے" نفرت" کا "حور نے کہہ کر جھٹکے سے اپنی کلائی اسکی گرفت سے آزاد کرائی وہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر پھر ضبط نہ کر سکا تو کمرے سے نکل گیا اور جاتے ہوئے دروازہ اتنے زور سے پٹخا کہ حور اپنی جگہ پہ سہم کہ رہ گئی۔
~~~~~~~~
ساحر شام میں گھر لوٹا تو سویرا نے اسے آتے ہی پانی کا گلاس تھمایا اور خود کمرے کی طرف چل دی۔ اس کے کپڑے نکال کر بستر پہ رکھے جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو سویرا نے اسےمخاطب کیا۔
"آاپکے کپڑے "وہ کپڑے ہاتھوں میں تھامے اسکے سامنے کئیے ہوئے بولی۔ اس نے ایک نظر بغور سویرا کو دیکھا وہ جوتا اتار رہا تھا جب سویرا وہی کھڑی اس کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی اسنے جوتا ایک طرف کیا وہ اسکا جوتا اٹھائے ایک طرف رکھ آئی تھی اسکی چپل اس کے پیروں کے پاس رکھ کر باہر کی جانب ہو لی۔ جبکہ ساحر نے اس کی پشت کو حیرت سے دیکھا جو اب جا چکی تھی۔ وہ یہ سب کیوں کر رہی تھی جب وہ اسکے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی پھر کیوں۔ وہ نہا کر باہر آیا تو سویرا کمرے میں داخل ہوئی۔
"ساحر "اس نے ڈرتے ہوئے اسکا نام پکارا تھا یہ پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اسے اسکے نام سےپکار رہی تھی۔
"ہمممم "وہ شیشے سے ہی دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"ممانی کھانے کے لیے بلا رہی ہے آپکو "
"ہاں، تم چلو میں آ رہا ہوں۔"وہ کہہ کر پلٹا تب بھی وہ وہی کھڑی تھی۔اس نے بڑھ کر دروازے کا ہینڈل گھمایا اور باہر نکل گیا سویرا بھی اسکے پیچھے باہر نکلی تھی۔کھانا کھانے کے بعد جب وہ کمرے میں واپس آیا تو کچھ دیر بعد سویرا بھی چائے کا کپ لیے کمرے میں داخل ہوئی۔
"آپ کی چائے" وہ کہہ کر پلٹ گئی تو ساحر نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔
"سویرا کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ، تم سے یہ سب کرنے کو کس نے کہا ہے "وہ سختی سے پوچھ رہا تھا۔
"وہ ممانی نے کہا تھا "اس نے تھوک نگلتے ہوئے ڈر کر جواب دیا۔
"اوہ اچھا تو یہ بات ہے، لے جاو یہ چائے مجھے نہیں پینی "
"مگر ممانی نے کہا"
"کیا ممانی ممانی !"اس نے ایک ہاتھ سے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی چائے کو زمین پہ دے مارا
"فار گاڈ سیک سویرا کیا تمہاری اپنی کوئی مرضی نہیں ہے کب تک یوں ہی لوگوں کی کٹھ پتلی بن کر ناچتی رہو گی"۔وہ چیختے ہوئے کہہ رہا تھا۔اسکے اس طرح کہنے سے وہ ڈر گئی تھی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھی۔اس نے سسکی کو روکنے کی خاطر منہ پہ ہاتھ رکھا تو ساحر غصے سے کمرے سے نکل گیا۔جبکہ سویرا وہی زمین پہ بیٹھ گئی تھی۔
~~~~~~
ساحر صحن میں چکر کاٹ رہا تھا جب محسن صاحب نے اسے مخاطب کیا۔
"جی ابا "
"تم پریشان لگ رہے ہو خیریت ہے "
"جی سب ٹھیک ہے"
"ساحر "وہ سوالیہ انداز میں اسے پکار رہے تھے
"کچھ نہیں ابا آپ امی کو منع کردے وہ سویرا کو میرے کام کرنے کو مت کہا کریں۔"
" ساحر وہ کم عمر ہے وہ ان سب باتوں سے انجان ہے اگر آج اسکی ماں زندہ ہوتی تو وہ بھی اسے اسی طرح سمجھاتی اس میں غلط تو کچھ بھی نہیں ہے۔"
"مگر میں نہیں چاہتا کہ وہ یوں ہر وقت میرے آگے پیچھے گھومے "
"ساحر دیکھو تمہیں اب اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ تمہاری بیوی اور تم اسکے شوہر ہو اور اگر تم اسے سختی کی بجائے پیار سے سمجھاو گے تو تمہاری ماں کو یہ سب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور میری ایک بات یاد رکھنا جو بات ہم سامنے والے کو پیار سے سمجھا سکتے ہیں وہ سختی سے نہیں سمجھا سکتے اور اگر تم اس پہ سختی کرو گے، تو وہ تم سے بدگمان ہو جائے گی باقی تم خود سمجھدار ہو۔"وہ اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے چلے گئے جبکے ساحر انکی باتوں کو سوچنے لگا تھا۔
~~~~~~~~
وہ صحن میں اکیلی ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔ ساحر بستر پہ لیٹا سو رہا تھا جب اسے احساس ہوا کے سویرا بیڈ پہ نہیں ہے اس کو وہاں نا پاکر ساحر کی آنکھ کھل گئی اس نے لائٹ آن کی تو وہ وہاں نہیں تھی۔وہ فورا کمرے سے باہر نکلا جب اسے صحن سے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔وہ اس کے پاس جا کھڑا ہوا تھا۔ روتے روتے سویرا کو کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی تھی اس نے ڈر کر سر گھٹنوں سے اٹھایا اور پیچھے کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"یہاں کیوں بیٹھی ہو "
"وویسے ہی"
"اچھا اور یہ رویا کیوں جا رہا تھا" وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
"ککچھ نہیں بس"
"نہیں کوئی بات تو ہے"
" امی یاد آ رہی تھی۔"اس نے ناک رگڑی۔
" ہمممم اچھا چلو اب کمرے میں چلیں اٹھو "وہ اسکے سامنے ہاتھ کیے کھڑا تھا جب سویرا نے اسے حیرت سے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھامے وہاں سے اٹھ گئی۔
"آئندہ اس وقت کمرے سے باہر مت نکلنا اوکے" وہ پرسکون انداز میں کہتا ہوا چل دیا تو سویرا بھی" جی "کہتی اسکے ہمراہ چل دی۔
وہ شخص گلابوں جیسا
میرے الجھے سوالوں جیسا ہے
وہ برف باری کے موسم میں
سرد ہواوں جیسا ہے
وہ شخص دعاوں کا حاصل
چند مکمل خواہشوں جیسا ہے
وہ بکھرے مزاجوں کا مالک
میرے سمٹے خوابوں جیسا ہے
وہ میرے قہقوں میں گم
ٹھنڈی آہوں جیسا ہے ۔
وہ ساون کی کالی گھٹاوں میں
اٹھتے طوفانوں جیسا ہے
وہ تپتی دھوپ میں
شجر کی چھاوں جیسا ہے
وہ شخص گلابوں جیسا ہے
میرے سمٹے خوابوں جیسا ہے
~~~~~~~
ارحم پورا دن گھر نہیں لوٹا تھا نہ ہی اس نے فون پہ کوئی اطلاع دی تھی۔ سارا دن وہ بے فکری سے گزار چکی تھی مگر اب اسے ڈر لگ رہا تھا گھر کے سب لوگ کسی شادی میں گئے تھے سارے ملازم بھی گھروں کو جا چکے تھے وہ آفندی مینشن میں اکیلی تھی خالی گھر سے عجیب وحشت ہو رہی تھی۔ یہ گھر اسکے گھر کی نسبت بہت بڑا تھا اور جتنا وہ روشنیوں میں خوبصورت دیکھتا تھا اتنا ہی رات میں خوفزدہ لگ رہا تھا وہ کمرے سے باہر پانی لینے کے لیے نکلی تھی جب ایک دم لائٹ بند ہو گئی۔ اس نے ڈر کے مارے کمروں کے سامنے بنی راہداری میں بھاگنا شروع کر دیا تھا وہ ڈر کے مارے ہواس باختہ ہو کر ارحم کو پکارا تھا۔ تب ہی وہ پاوں مڑنے کے سبب بری طرح زمین پہ گر گئی تھی اسے محسوس ہوا تھا کہ وہاں کوئی کھڑا ہے وہ کسی کے قدموں میں تھی۔ اسے یوں اپنے پیروں میں دیکھ کے ارحم کے دل کو کچھ ہوا تھا محبوب کا عاشق کے قدموں میں ہونا عشق کی توہین ہے ارحم نے جھٹ سے اسے زمین سے اٹھاتے ہوئے مظبوطی سے تھامے اپنے قریب کیا تو وہ پوری طاقت سے اسے خود سے دور دھکیلنے لگی۔
"ککون ہو تم "وہ چیخ رہی تھی۔
"میں تمہارا مسیحا "۔اسکے لہجے میں کچھ تھا ارحم نے حور کا جملہ اسے لوٹایا تھا وہ اس آواز کو لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ مگر ارحم نے اسے نارمل کرنے کے لیے مزید کہا۔
" حور اٹس می ارحم ریلیکس کچھ نہیں ہوا ابھی آ جائے گی لائٹ "ارحم نے اسکے سر کو سہلاتے ہوئے بولا اسکی آواز سن کے حور کی جان میں جان آئی۔ڈر کے مارے اسکے الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے تھے وہ سانس بہال کرتے ہوئے بولی
"کہاں گئے تھے مجھے اکیلا چھوڑ کے" وہ ڈر کے زیرِ اثر کہہ رہی تھی ارحم بے ساختہ مسکرایا۔
"کہیں نہیں بس کچھ کام تھا"۔حور نے اپنا سر اسکے سینے پہ ٹکا دیا وہ اسکے انداز پہ مسلسل مسکرا رہا تھا وہ اتنا ڈر گئی تھی کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ تو ارحم سے نفرت کرتی ہے۔
"تم ڈر گئی تھی حور" اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا
"ہا،ننہیں تو "اس نے ایک جھٹکے سے اپنا سر اسکے سینے سے اٹھایا تھا اتنے میں لائٹ واپس آ گئی تھی۔خود کو اسکے اتنا قریب دیکھ کر حور نے فورا پیچھے ہٹنا چاہا مگر ارحم نے اپنے بازووں کی گرفت ڈھیلی نہیں کی تو اس نے غصے سے ارحم کو گھورا۔مگر وہ تو اسکی نیلی آنکھوں کو تکنے میں محو تھا۔
"چھوڑو مجھے "وہ محویت سے اسکی آنکھیں دیکھ رہا تھا جن میں ڈوب جانے کا دل کرتا تھا۔اس کی آواز پہ محویت ٹوٹی تھی۔
"کیا کہا" اس نے ناسمجھی سے پوچھا
"میں نے کہا چھوڑو" وہ سختی سے بولی تو ارحم نے بڑے آرام اس کو ایک طرف کرتے ہوئے خود کو نارمل کیا اور ایک طرف ہو گیا۔
~~~~~~~~
وہ رات کے پہلے پہر چھت پہ کھڑی چاند کو تک رہی تھی۔سچ ہی کہتی تھی حور دو ہی تھے جنہیں حور سے بے پناہ محبت تھی ایک چاند اور دوسری حور وہ کسی اور کی محبت کے لیے شاید بنی ہی نہیں تھی۔ وہ محویت سے چاند کو تکتے ہوئے سوچ رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کے ہونے کا احساس ہوا تھا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی اسکے بہت قریب تھا ان کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا سویرا نے خوف سے اس شخص کو خود سے دور دھکیلتے ہوئے ڈرے سہمے لہجے میں کہا تھا۔
"ککون ہو تم"
"اس وقت کیا کر رہی ہو یہاں" وہ سرد لہجے میں بولا مگر سختی اسکے لہجے میں کہیں نہیں تھی سویرا نے پل بھر کو اپنا رکا ہوا سانس بہال کیا۔
"آاپ " وہ پھر سے پلٹ گئی تھی۔ جب کہ ساحر کی آواز سن کر جان میں جان آئی تھی۔
"میں چاند دیکھنے آئی تھی" وہ چاند کو دیکھتےہوئے بولی۔
چند پل یونہی خاموشی کی نظر ہوئے تو ساحر نے بولنا شروع کیا۔
"سویرا"وہ بھی اس کے مقابل کھڑا اب چاند کو دیکھ رہا تھا۔
"جی "وہ ہنوز سامنے دیکھ رہی تھی۔
"سویرا دیکھو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس بات کی شکایت تم بابا سے نہیں کرو گی تمہیں اس بات کی اجازت نہیں ہے۔"
"جی صیح "سویرا نے بنا نظروں کا رخ بدلے جواب دیا۔اس کے جواب دینے پہ ساحر حیران ہوا تھا۔ یعنی اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ساحر نے اسکی لاتعلقی پہ بنا کوئی ردعمل دئیے چند پل کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر سے بولنا شروع کیا۔
"میں اس وقت اپنی زندگی کے اس دوراہے پہ ہوں جہاں میں کسی سے نہ محبت کرتا ہوں ، نہ نفرت میں ہر احساس سے خالی ہو چکا ہوں۔"وہ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ بیچ میں سویرا بول اٹھی تھی۔
"مجھے آپ سے اس طرح کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ جن پہ ترس کھایا ہو ان سے محبت نہیں ہوتی ساحر ،محبت تو بنجر دلوں پر خود بخود نازل ہوا کرتی ہے یہ من چاہا محبوب مانگتی ہے "وہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ نیچے کی جانب چل دی تھی۔ ساحر اسکی پشت تکتا رہ گیا تھا
"بعض دفع انسان برداشت کرتے کرتے اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اسکے پاس دوسروں کو دینے کے لئیے کچھ نہیں ہوتا یہاں تک کے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں۔"
وہ بھی ایسی ہی ہو گئی تھی اسکے پاس بھی ساحر کو دینے کے لئیے کچھ نہیں تھا۔اس نے برداشت کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں ہونے والی ہر چیز کو بس اپنے رب کی مرضی سمجھ کے تسلیم کر رہی تھی۔
~~~~~~~~
حور کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جب ارحم نہا کر کمرے میں واپس آیا تھا وہ ہنوز بستر پہ بیٹھے منہ پہ میگزین رکھے ہوئے تھی ارحم نے تولیہ ایک طرف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا تھا۔
حور
جی
تم پریشان لگ رہی ہو خیریت ہے۔
میرے ٹھیک ہونے نہ ہونے سے آپ کو فرق نہیں پڑنا چاہیئے۔
جنہیں محبت ہوتی ہے حور انہیں فرق پڑتا ہے۔
ہنہہہ جبری محبت وہ بڑبڑائی تھی ارحم اسکی جانب جھکا تو حور نے تھوک نگلا نہ جانے کیوں اسے ارحم کی آنکھوں سے خوف محسوس ہوا تھا۔
تم اس طرح بار بار میری سچی محبت کی توہین نہیں کر سکتی حور وہ سرخ آنکھوں سے اس پہ جھکا کہہ رہا تھا وہ اپنے انداز سے اسے خوفزدہ کر رہا تھا جن آنکھوں میں اس نے ہمیشہ اپنے لیے محبت دیکھی تھی آج ان میں غصہ در آیا تھا اس نے غصے سے مٹھیاں بینچے ایک قہر آلود نظر پاس پڑی چیزوں پہ ڈالی اور دوسرے ہی لمحے اسنے سائڈ ٹیبل پہ پڑی ساری چیزوں کو زمین بوس کر دیا۔ جگ کے ٹوٹنے کی آواز پہ حور نے خوف سے آنکھیں میچیں تھی۔ وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا اپنے کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ حور نے اسکے جانے کے بعد سرد آہ بھری تھی۔
~~~~~~~
ساحر شیشے کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا جب سویرا کالج یونیفارم میں تیار اندر داخل ہوئی تھی ساحر نے ایک پل کو اسے یوں سفید یونیفارم میں دیکھا تو چند پل اسے ہی دیکھتا رہ گیا وہ کم عمر معصوم سی لڑکی سفید یونیفارم میں لمبے کمر تک آتے بالوں کی پونی کیے سلیقے سے ڈوپٹہ کندھوں پہ سیٹ کئیے نکھری رنگت اور شفاف چہرے میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اس کی محویت سویرا کے الفاظ پہ ٹوٹی تھی۔
"مجھے کالج جانا ہے "اس نے وہی کھڑے کھڑے کہا تو ساحر نے پلٹ کر اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھ کر کہا
"تو جاو "ساحر نے آئی برو اچکائے
" ماموں نے کہا ہے"اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ساحر بول اٹھا
"کیا کہا ہے؟" اس نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے جوتے پاوں میں پہنتے ہوئے سوال کیا تھا۔
" کہ آپ کو بتا دوں "
"کیا بتا دو "وہ ہنوز جوتوں پہ جھکا ہوا تھا۔سویرا کو اسکے سوالوں سے کوفت ہونے لگی۔
"کہ مجھے کالج چھوڑ دیں"
"تو ایسے کہوں نہ کہ ماموں نے کہا ہے تمہیں کالج چھوڑنا ہے "وہ جوتے پہن کر اب اپنی جگہ پہ کھڑا ہو گیا تھا۔جبکہ سویرا نے اسے سرد مہری سے دیکھا تھا۔ اور پاس پڑی چادر اوڑھے اپنا بستہ ہاتھ میں تھامے اسکے سامنے کھڑی تھی جبکہ ساحر بائیک کی چابی اٹھائے باہر کی جانب بڑھ گیا۔
~~~~~~~~
حور آج دوپہر میں ڈرائیور کے ساتھ اپنی ماں کے گھر آئی تھی سویرا کو گھر میں نہ پا کر وہ لاونج میں آ بیٹھی تو زرین بیگم نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔
ح"ور میری جان تم خوش ہو ناں "ناجانے انہوں نے حور سےوہ سوال کیوں کیا تھا جیسے انکے دل میں کوئی خدشہ ہو۔آخر ماں تھی بیٹی کہے یا نہ کہے وہ محسوس کر سکتی تھی۔
"کیوں امی آپ کو ایسا کیوں لگا کہ میں خوش نہیں ہوں "
"پتا نہیں تیرے چہرے پہ میں نے نکاح والے دن سےآج تک وہ اطمنان نہیں دیکھا جو ایک خوشحال بیٹی کے چہرے پہ ہوتا ہے"۔انکی بات پہ حور نے ماں کو بغور دیکھا تھا سچ کہتے ہیں ماں سے زیادہ اپنی اولاد کو کوئی نہیں جان سکتا۔پل بھر کو اسے ارحم کا کل والا رویہ یاد آیا تھا۔دل چاہا تھا کہ کہہ دے امی میں ان کے ساتھ خوش نہیں ہوں اس نے مجھ پہ زبردستی اپنی محبت کا تھونس جمایا ہے مگر پھر ناجانے کیوں اسکے ہونٹوں سے وہ لفظ نکلنے سے انکاری ہو گئے۔اس نے سر ماں کے کندھے پہ رکھ کر مسکرانے کی بھرپور کوشش کی۔
"نہیں امی میں خوش ہوں بہت خوش "
"تو کہتی ہے تو مان لیتی ہوں ورنہ مجھے ایسا بلکل نہیں لگتا حورالعین۔" وہ لاڈ میں اسکا پورا نام پکارا کرتی تھی۔
"اماں تو میرے لیے پریشان نہ ہوا کر میں ٹھیک ہوں "حور بھی پیار سے مآن کو اماں کہتی تھی۔
"حور کبھی کبھی ہمیں زندگی میں آگے بڑھنا پڑتا اپنوں کے لئیے تٗو بھی ارحم کو ایک موقع دے دے۔"انہوں نے جانے کیا سوچ کر یہ کہا تھا۔
"میں کوشش کروں گی۔"اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تو اسکے جواب پہ زرین بیگم مطمئین ہو گئی۔
~~~~~~~~
سویرا کالج کے باہر کھڑی ساحر کا انتظار کر رہی تھی جب اسے ساحر کا میسج ملا تھا کہ وہ آفس میں مصروف ہے اور وہ اسے لینے نہیں آسکتا اس لیے وہ رکشے پہ واپس آ جائے۔مگر اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ رکشہ ہی کر لے اسی لیے کالج سے پیدل ہی گھرکی طرف چل دی ایک سنسان سڑک پہ چلتے ہوئے وہ اپنی پی سوچوں میں گم تھی جب کچھ آوارہ لفنگوں نے اس کے پیچھے سے آوازیں کسی۔
"اوہوں!! کہاں جا رہی ہو حسینہ آو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔" وہ مسلسل اسکے پیچھے بائیک لیے آ رہے تھے جب سامنے سے چھ فٹ سے نکلتے شخص کو سختی سے اپنی جانب آتے دیکھا تو فورا بائیک کی سپیڈ تیز کئیے وہاں سے غائب ہو گئے سویرا جو چپ چاپ سر جھکائے پھولی سانس کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی ایک لمحے کو چونکی کیونکہ اب وہ آوازیں آنا بند ہو گئی تھی مگر وہ ابھی بھی تیز قدموں سے چلتی جا رہی تھی کہ اپنے سامنے رکنے والی بائیک پہ مزید سہم گئی خوف کے مارے وہ زرد ہو رہی تھی اس نے چند قدم پیچھے ہٹائے تھے کے پیچھے پڑے پتھر سے گرتے گرتے اسکا بازو ایک مظبوط گرفت میں قید کر لیا گیا سنبھلتے ہی سر اٹھایا تو سامنے کھڑے ساحر کے اعصاب غصے سے تنے ہوئے تھے مغرور آنکھوں میں غصہ در آیا تھا اور ماتھے پہ بل پڑے تھے۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بینچ رکھی تھی۔ ایک لمحے کو دونوں کی آنکھیں ملی تھی مگر پھر دونوں نے نظروں کا رخ پیھر لیا۔اس نے اسکا بازو چھوڑتے ہوئے کہا۔
"بیٹھو جلدی"۔ وہ غصے سے کہہ رہا تھا سویرا بنا ایک پل ضائع کیئے بیٹھ گئی۔آج پہلی بار اسے اس سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔بلکہ اس کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوا تھا۔ وہ اسکا محافظ تھا اسکے آس پاس ہونے سے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی۔
~~~~~~
انکی شادی کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا اس کہ بعد ساحر اور سویرا میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی وہ معمول کے مطابق اس کا ہر کام کر دیتی اور اب ساحر کو بھی اس سب کی عادت سی ہو گئی تھی آج اتوار کے دن حور سویرا سے ملنے آئی تھی۔دونوں کھانا کھانے کے بعد سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی جب حور نے سوال کیا تھا۔
"کیا بھائی نے تم سے بات کی سویرا۔"
"ہمممم کی تھی "
"کیا "
"کہ میں ان سے محبت کی کوئی امید نہ رکھو "
"یہ کیا بات ہوئی سویرا وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میں ان سے بات کروں گی "
"نہیں تم اب میرے لیے کچھ بھی نہیں کرو گی حور "
"مگر سویرا تم سچی محبت کی حقدار ہو۔ "
"حور کیا ہے یہ محبت کیوں ہر طرف اس کا نقارا پیٹا جا رہا ہے محبت محبت محبت تنگ آ گئی ہوں میں اس نام نہاد سے بے نام احساس کی دوسروں سے بھیک مانگتے مانگتے۔ کیا ہم اس احساس کو ایک طرف رکھ کر زندگی نہیں گزار سکتے"۔اس کی آنکھیں سرد تھی بلکل اسکے لہجے کی۔ حور کو اسکی سرد مہری سے خوف آیا تھا وہ اب کہیں سے معصوم اور رونے دھونے والی سویرا نہیں لگ رہی تھی۔ حور نے تکلیف سے آنکھیں میچیں پھر دکھ سے بولی۔
"تمہاری سب سے بڑی مجرم میں ہو سویرا میری وجہ سے تم دونوں اس زبردستی کے رشتے میں بندھ گئے ہو۔ "
"نہیں حور قسمت کی باتیں قسمت ہی جانتی ہے اور شاید میری کہانی میں یہ سب ہونا ہی لکھا تھا۔"وہ پھیکا سا مسکرا کر کہہ رہی تھی۔ حور دل ہی دل میں اس کی خوشیوں کی دعا کی تھی۔
~~~~~~~~
ایک ماہ بعد
آج ساحر گھر جلدی آیا تھا وہ آج بہت خوش تھا اس نے سویرا کو ڈنر کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں اب کافی بننے لگی تھی اور کچھ نہ صیح وہ اب ایک دوسرے کو سمجھنے ضرور لگے تھے اسے سویرا سے محبت ہوئی تھی یا نہیں اس بات سے وہ انجان تھا وہ گھر آیا تو وہ وہی اپنے ازلی حلیے میں گھوم رہی تھی۔
"سویرا میں نے تم سے کہا تھا کہ ہم آج ڈنر پہ جائے گے اور تم تیار بھی نہیں ہوئی۔"
"نہیں میں تیار ہو بس ایک منٹ" وہ فورا کمرے میں گئی اور اپنا پرس اٹھا لائی۔
"اچھا چلو جلدی کرو ہم لیٹ ہو گئے ہیں۔"
"جی"وہ دنوں گاڑی میں بیٹھے تھے جب ساحر نے اسے مخاطب کیا
"اور زوجہ حیات کہاں جانا پسند کریں گی۔"اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تو سویرا نے اسے ناسمجھی سے دیکھا
"کیا مطلب آپ کی کوئی مردہ زوجہ بھی ہے "
"کیا ؟"ساحر نے پل بھر کو اسکو حیرت سے دیکھا جو اسی کو دیکھ رہی تھی
" ابھی آپ نے ہی کہا ہے زوجہِ حیات "
"اوہ میرے خدا!، سویرا تمہیں نہیں لگتا تم کچھ زیادہ ہی معصوم ہو۔"
"نہیں "اس نے معصومانہ انداز میں منہ بنا کر غصے سے جواب دیا تو ساحر کا قہقہ ہوا میں گونجا۔
ان کو ایک ساتھ دیکھ کر چند لڑکوں نے مظہر کو دیکھا اور پھر بولے" یہ وہی لڑکا ہے نہ مظہر جس کے ساتھ تمہاری بہن بھاگ گئی تھی دیکھو کیسے گھوم رہی ہے۔"
~~~~~~~~
تین ماہ بعد
اتوار کا دن تھا وہ تینوں آج پارک میں ملنے والے تھے انکی شادی کو تین ماہ گزر گئے تھے۔ زندگی معمول پہ آنے لگی تھی سویرا اور ساحر اب ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تھے حور نے بھی ارحم کے کہنے پہ اسے خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع دیا تھا۔ ساحر کو وہ کم گو معصوم سی لڑکی اب اچھی لگنے لگی تھی جبکہ سویرا بھی اس سے اب کم ڈرتی تھی۔اب وہ اسے ناز نخرے دکھاتی جو وہ پورے بھی کرتا تھا۔
سویرا تیار ہو کر صوفے پہ بیٹھے ساحر کے سامنے گھومتی ہوئی بولی تھی۔جو اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھا
"کیسی لگ رہی ہوں میں" وہ اس کا لیپ ٹاپ بند کرتی ہوئی بولی اس نے کالے رنگ کی پیروں تک آتی فراک پہن رکھی تھی اور میک آپ کے نام پہ آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پہ ہلکی سی لپ سٹک لگائی تھی وہ اس ہلکی پھلکی تیاری میں بھی اچھی لگ رہی تھی۔
''آہاں بلکل ایسے لگ رہا ہے جیسے کالے رنگ سے نہا کر آئی ہو۔"
"کیا مطلب" اس نے حیرت سے ساحر کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"کچھ نہیں "وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مطلب میں اچھی نہیں لگ رہی" اس نے آنکھوں میں آنسوو سموئے ہوئے کہا تو ساحر کو اپنی تعریف پہ پچھتاوا ہوا
"ارے بابا کیا ہو گیا میں مزاق کر رہا تھا اچھی لگ رہی ہو"اس نے اسکے دونوں بازو تھامے اسے یقین دلانا چاہا۔
''نہیں اب آپ میرا دل رکھنے کے لیے جھوٹ کہہ رہے ہیں میں جانتی ہوں میں اچھی نہیں لگ رہی۔"اس کی بات پہ ساحر نے اسکے چہرے کا رخ اپنی جانب موڑا جو وہ دوسری طرف کر چکی تھی۔وہ مسکرائی تو ساحر کا بے اختیار قہقہ ہوا میں گونجا
"کیا ہے" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی
'' میری جان کاجل کی پوری بوتل آنکھوں میں انڈیلنے کی کیا ضرورت تھی۔"
"کیا"پہلے ناسمجھی سے اس نے ساحر کو دیکھا پھر بات سمجھ آنے پہ غصے سے بولی۔
"مجھے مت بلائیے گا آپ اب ہنہہہہ" وہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے واک آوٹ کر گئی جبکہ پیچھے ساحر کا ایک اور قہقہ ہوا میں گونجا تھا۔
~~~~~~~~
حور اور ارحم گاڑی میں بیٹھے پارک کی طرف جا رہے تھے
ساحر اور سویرا دونوں پارک میں واک کر رہے تھے مگر کافی دیر سے کوئی ان دونوں کا پیچھا کر رہا تھا۔ سویرا ساحر کی کسی بات پہ ہنس رہی تھی جب ہی کسی نے پیچھے سے گولی چلائی تھی گولی کی آواز پہ دور سے آتی حور نے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں بندوق تھی مگر اس وقت اسکی جانب اس شخص کی کمر تھی وہ فورا بھاگتی ہوئی ساحر کے پاس پہنچی تھی اس نے اس شخص کو بغور دیکھا تھا جبکہ ساحر سویرا کو ہوش دلانے کی خاطر اسکا نام پکار رہا تھا۔ مگر وہ ہوش سے بیگانہ زمین پہ بے سود پڑی تھی ہر طرف خون ہی خون تھا گولی اسکے سینے پہ لگی تھی حور کی آنکھوں میں خون اترا تھا ارحم اور ساحر دونوں اسکو لیے گاڑی کی جانب دوڑے جبکہ حور اس شخص کی طرف۔
"مظہر دعا کرو وہ بچ جائے ورنہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑو گی اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو اسکی زندگی کی دعا کرو" وہ کہہ کر ان کے پیچھے لپکی جبکے مظہر وہی کھڑا بے یقینی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔"یہ میں نے کیا کر دیا "،"تم نے کچھ غلط نہیں کیا" اندر سے کہیں سے آواز آئی "وہ تھی ہی اس قابل ہنہہہ بدزات" وہ کئی دن سے ان کا پیچھا کر رہا تھا مگر آج اسے موقع ملا تھا کہ وہ اپنی ہر تزلیل کا بدلہ لے سکے۔ہر وہ بے عزتی جو اسنے سویرا کی وجہ سے اٹھائی تھی۔ اسکی ماں کے بقول وہ گھر سے اپنے ماموں زاد بھائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اور مظہر اس بات کے طعنے ہر شخص سے سن سن کر تنگ آ گیا تھا وہ اس بات کا فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ سویرا کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
~~~~~~~
ساحر کی گود میں سویرا کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی اور وہ چیخ چیخ کر دہائی دے رہا تھا "گاڑی جلدی چلاو ارحم"
اسے سٹریچر پر ڈال کر آئی سی یوں میں لیجایا جا رہا تھا جب حور نے ارحم کا بازو تھامے کہا
"ارحم آپ کو اللہ کا واسطہ ہے اسے بچا لے میں اسکے بغیر مر جاوں گی پلیز اسے بچا لے میری بہن بہت معصوم ہے اسنے تو ابھی زندگی کی کوئی خوشی بھی نہیں دیکھی" وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور ارحم کا دل اسے روتا دیکھ کر پھٹ رہا تھا اس نے اسے خود سے لگایا اور یقین دلایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
~~~~~~~
حادثے کی خبر ملنے کے بعد سب لوگ اسکے صحت یاب ہونے کی دعائیں کر رہے تھے مگر اسے ابھی تک ہوش نہیں آئی تھی تین گھنٹے بعد ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلا تھا جب وہ دونوں بھاگ کر اسکے پاس پہنچے ساحر بھی آنکھوں میں امید لیے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔جب ڈاکٹر نے بتایا کہ اسکی حالت بہت کریٹیکل ہے پیشنٹ ساحر نامی شخص کو بلا رہی ہیں۔
"جی میں ہوں"
" آپ ان سے مل لیں"۔ساحر فورا کمرے میں گیا تھا وہ مشینوں کے زیِراثر پڑی تھی چہرہ زرد ہو رہا تھا خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ نڈھال ہو گئئ تھی۔
"ساحر "
"ہاں سویرا میں یہی ہوں تمہارے پاس "وہ اسکا ہاتھ تھامے محبت سے کہہ رہا تھا۔
"ساحر میں چاہ کر بھی خود کو آپ سے محبت کرنے سے روک نہیں پائی۔آپ نے مجھے خود سے محبت کرنے پہ مجبور کر دیا ساحر، اگر مجھ سے کوئئ غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دیجئیے گا۔ میں جانتی ہوں میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی محبت کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں ساحر روئے مت مجھے مسکرا کر رخصت کریں۔"
" نہیں مت کہو ایسے سویرا مجھے تکلیف ہو رہی ہے" ساحر نے کرب سے آنکھیں میچیں۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ساحر کے ہاتھ پہ سویرا کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اسکا سانس اکھڑنے لگا تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئی تھی وہ بے اختیار چیخا تھا "نہیں سویرا پلیز مجھے چھوڑ کر مت جانا"وہ چیخ رہا تھا مگر وہ سننے سے قاصر تھی۔
ڈاکٹر نے اسے کمرے سے باہر نکال دیا تھا وہ زمین پہ بیٹھتا چلا گیا تھا اور حور اسکے پاس بیٹھی اس کو حوصلہ دے رہی تھی کبھی نہ رونے والا ساحر آنکھوں میں آنسو لیے حور کو دیکھ رہا تھا۔
"حور اس نے کہا تھا وہ چلی جائے گی اس نے کہا تھا "
"نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہو گا آپ یقین رکھے"۔ اس نے ساحر کے بازو کو سہلاتے ہوئے حوصلہ دیا۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے باہر نکل آیا تھا وہ دونوں زمین چھوڑے اٹھ کھڑے ہوئے۔جب ڈاکڑ نے افسوس سے کہا تھا۔
"شی از نو مور " اور ان سب کو یوں لگا جیسے کسی نے انکے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا ہو حور کو اپنے کان سائیں سائیں کرتے سنائی دے رہے تھے ساحر وہی زمین پہ بیٹھتا چلا گیا تھا۔ وہ اس سے بے پناہ محبت کرنے والی لڑکی اسے چھوڑ کے چلی گئی تھی۔ سب کے ظلم و ستم جھیل کر وہ معصوم آج بے گناہ مار دی گئی تھی۔ اسکا قاتل اسکا اپنا بھائی تھا۔ اور ظلم تو یہ تھا کہ وہ اپنے کئیے پہ شرمندہ بھی نہیں تھا۔
"کچھ لوگ بس گناہ کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجے جاتے ہیں انکو معافی کسی صورت نہیں ملنی ہوتی وہ بس عیش و عشرت کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتے انکا بازو تھامنے والا کوئی نہیں ہوتا۔وہ اس دلدل میں جی بھر کے جیتے ہیں کیونکہ اسکے بعد کی زندگی کا انتخاب تو اس منصف نے کرنا ہے جس کی عدالت میں گنہگار کو باعزت بری ہونے کی اجازت نہیں۔"
~~~~~~~~~
ایک چیخوں پکار تھی جو اس وقت پورے گھر میں برپا تھی ہر طرف صفےِماتم بچھا ہوا تھا۔ لوگ کانوں میں چہ منگوئیاں کر رہے تھے کہ بھائی نے جوان بہن کو قتل کر دیا۔حور کو ہر کسی سے وحشت ہو رہی تھی وہ نڈھال ہوئی ایک طرف دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ جب اسے ایسا محسوس ہوا جیسے سویرا اسکے پاس بیٹھی مسکرا رہی ہے اور وہ اسے خود سے لگانے کے لیے بڑھی تھی کہ وہی زمین پہ گر گئی۔ ارحم اسکی جانب بھاگا تھا مگر وہ ایک بار پھر بے ہوش ہو چکی تھی۔ساحر نے اسکے باپ کو جنازے پہ آنےسے منع کر دیا تھا۔ وہ آخری بار بھی اپنی بے گناہ بیٹی کو دیکھ نہیں پائے تھے۔
حور کو ہوش آئی تو جنازہ اٹھایا جا رہا تھا۔بے اختیار ہی وہ منمنائی تھی۔
"وہ محبتوں کی مٹی سے گھوندھی ہوئی لڑکی حقیقتوں کی تلخیوں کو سہتے سہتے مر گئی ارحم"حور بے یقینی سے اسکا اٹھتا جنازہ دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔اس کی بات پہ ارحم نے کرب سے آنکھیں میچیں۔
"لازم تو نہیں کہ ہر کہانی میں محبت امر ہو جائے اور عاشق کو وصلِ یار نصیب ہو۔کچھ کہانیاں ادھوری رہنے کے لیے تخلیق کی جاتی ہیں۔"
~~~~~~~~~
ایک سال بعد:
حور کو اللہ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا ساحر اور احمر دونوں تختے پہ بیٹھے کھیل رہے تھے وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی جب ارحم کی کال آئی۔
"ہیلو حور بات کی تم نے ساحر سے "
"نہیں میری ہمت نہیں ہو رہی ارحم میں انہیں کیسے کہہ دو کے وہ کسی اور سے شادی کر لیں میں یہ نہیں کر سکتی "وہ نم آنکھوں سے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی جو کہیں سے پرانا مسکراتا ہوا ساحر نہیں رہا تھا۔
"حور اس کے آگے ساری زندگی پڑی ہے وہ ایسے کیسے گزارے گا اتنا لمبا سفر" اسکی بات پہ حور نہ تھوک نگلا۔
"تم خود کہہ کر دیکھ لو ارحم پلیز "اسنے کہتے ہی کال کاٹ دی۔
~~~~~~~
مظہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں مارا گیا تھا اسی ایکسیڈنٹ میں راشدہ بیگم بھی مفلوج ہو گئی تھی انکی دونوں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا بیٹی آئمہ کسی غیر لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ فراز صاحب اپنے گھر کو یوں بکھرتا دیکھ کر وقت سے پہلے ضعیف ہو گئے تھے مکافات اپنا آپ دوہرا رہا تھا مگر افسوس دیکھنے والی زندہ نہیں رہی تھی۔ ساحر نے سویرا کہ بعد دوبارہ کبھی کسی اور عورت کو نہیں سوچا تھا۔ وہ اسکی پہلی اور آخری محبت تھی اگر دل میں کہیں کسک تھی تو فقت اس بات کی کے وہ یہ بات اس سے کہہ نہیں سکا تھا وقت نے اتنی مہلت ہی نہیں دی۔مگر وہ یہ بات روز اس سے کہتا تھا آج بھی وہ اسے یہی بتانے آیا تھا۔
وہ سر جھکائے بیٹھا تھا جب اسے سویرا کی مسکراتی آواز سنائی دی تھی۔
"ساحر آپ کو پتا ہے آپ کا نام بلکل آپ کی شخصیت کے مطابق ہے"وہ اسکی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔
"کیا مطلب" وہ حیران ہوا
"آپ واقعی ایک ساحر ہے آپ خود سے محبت کرنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔"وہ اسکے ماتھے پہ آئے بالوں کو پیچھے کر رہی تھی۔
"اچھا جی "اس نے آئی برو اچکائے
"جی" وہ کھلکھلائی
"تم بھی اپنے نام جیسی ہو، بلکل کسی صبح کی طرح شفاف ،پٗرنور ، اور دلکش ،میری سویرا "وہ اسکے ہاتھ پہ بوسہ دے کر بولا تھا۔اور وہ اسکے اس انداز پہ جھنپ گئی۔
رات کے سائے ہر طرف پھیل رہے تھے اس لیے قبرستان سے اٹھ کر چل دیا کچھ فاصلے پہ پہنچ ایک آخری بار پلٹ کر نم آنکھوں سے اسنے اسکی مٹی سے بنی اس قبر کو دیکھا تھا جو پھولوں سے ڈھکی تھی۔جہاں اسکی "زوجہ حیات" سکون کی نیند سو رہی تھی۔ وہ سچ بولنے کی اتنی عادی تھی کہ اس نے کہا تھا وہ چلی جائے گی اور وہ چلی بھی گئی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔وہ آج بھی دکھی تھا اس دن کی طرح جس دن اس نے اسے کھویا تھا ساحر اسے جیت کر بھی ہار گیا تھا اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہو سکتا تھا۔کسی کو جیت کر بھی ہار جانے سے بری بھی کوئی ہار ہو گی۔ سچ کہتے ہیں وصلِ یار کے بعد جدائی مار دیتی ہے۔
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
~~~~~~~
~~~~~~
Milind salve
28-Dec-2021 12:03 PM
Good
Reply
Ilyana
24-Dec-2021 07:30 PM
Wha
Reply
Zeba Islam
24-Dec-2021 06:27 PM
Nice
Reply