غزل
بزرگوں کی یہ باتیں ہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا
بھروسہ ان پہ جو کرتا ہے دھوکہ کھا نہیں سکتا
ہم اپنے دل پہ اس کی جستجو کا بوجھ کیوں ڈالیں
وہ اک ڈوبا ہوا سورج ہے واپس آ نہیں سکتا
نکل سکتا نہیں وہ شخص مایوسی کے دلدل سے
کبھی اپنی تمناؤں کو جو ٹھکرا نہیں سکتا
بس اک ٹھوکر سنبھلنے کا سبق اسکو سکھاتی ہے
جو ہے چالاک وہ ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا نہیں سکتا
زوال آیگا اک دن حسن پر بھی حسن کی دیوی
یہ مت سمجھو کھلا جو پھول وہ مرجھا نہیں سکتا
مجھے جاوید وہ کس طرح اپنے ساتھ رکھ لیتا
میں پتھر ہوں مجھے ہیرا کوئی اپنا نہیں سکتا
جاوید سلطانپوری
साहित्य का अनूठा संगम
03-Mar-2022 08:23 PM
Good👍🏻👍🏻
Reply
Farida
03-Mar-2022 08:09 PM
Nyc
Reply
Milind salve
03-Mar-2022 06:04 PM
Good
Reply