Add To collaction

غزل

بزرگوں کی یہ باتیں ہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا
بھروسہ ان پہ جو کرتا ہے دھوکہ کھا نہیں سکتا

ہم اپنے دل پہ اس کی جستجو کا بوجھ کیوں ڈالیں
وہ اک ڈوبا ہوا سورج ہے واپس آ نہیں سکتا

نکل سکتا نہیں وہ شخص مایوسی کے دلدل سے
کبھی اپنی تمناؤں کو جو ٹھکرا نہیں سکتا

بس اک ٹھوکر سنبھلنے کا سبق اسکو سکھاتی ہے
جو ہے چالاک وہ ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا نہیں سکتا

زوال آیگا اک دن حسن پر بھی حسن کی دیوی
یہ مت سمجھو کھلا جو پھول وہ مرجھا نہیں سکتا

مجھے جاوید وہ کس طرح اپنے ساتھ رکھ لیتا
میں پتھر ہوں مجھے ہیرا کوئی اپنا نہیں سکتا

جاوید سلطانپوری

   7
6 Comments

Farida

03-Mar-2022 08:09 PM

Nyc

Reply

Milind salve

03-Mar-2022 06:04 PM

Good

Reply