Add To collaction

17-Jul-2022 الفاظ

   الفاظ


لفظ کی جمع الفاظ ہے اور لفظوں کے مجموعے جملے کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔انسان کے احساسات،خیالات  اور جذبات کا اظہار گفتگو کی شکل میں ہو یا پھر تحریری صورت میں یہ الفاظ ہی ہیں جن میں انسان کا عکس نظر آتا ہے ۔ ہماری زندگی میں الفاظ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ گفتگو کرنے میں انسان کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے اس کی طرز بیانی سے اس کی تربیت،اس کے اخلاق و اوصاف ،مزاج کے علاوہ اس کے خاندان نسل و نسب کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دراصل الفاظ کا انتخاب ہی کسی شخص کے اعلی ظرف یا کم ظرف ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص نفرت و حقارت ، عداوت یا پھر غصے کی حالت میں زہر اگلنے لگے  غیر مہذب الفاظ گالی گلوج وغیرہ کا استعمال کرنے لگے تو ایسے شخص انسانیت کے حلقے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ خوشگوار محفلوں کو پراگندہ کر دیتے ہیں ۔
زندگی میں ہر طرح کے لمحات اور واقعات سے گزرنا پڑتا ہے کبھی درد وغم کا سایہ تو کبھی تکلیف دہ واقعات اور کبھی دلخراش سانحہ ایسے ماحول میں اسی مناسبت سے الفاظ کے انتخاب سے گفتگو کرنا چاہیۓ کیونکہ لفظوں نے بھی خوشی اور غم کا لباس پہنا ہوا ہے جسے ہم سلیقے سے ترتیب دیتے ہیں ۔
خوشی اور مسرت ، جیت اور فتح کے وقت ہم اپنے جذبات اور احساسات کو خوبصورت لفظوں کے ہار میں پرو کر اظہار تشکر کرتے ہیں ۔
ماحول اور حالات کے مطابق ہم الفاظ اور اسکی ادائیگی پر دھیان دیتے ہیں ۔انسان کی خوش اخلاقی یا  بد اخلاقی کا دارومدار اس کی بات چیت اور گفتگو پر ہی منحصر ہے ۔
انسان کو اللہ تبارک وتعالی نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا ہے اس کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ طرز کلام بھی ہے جو انسان کی شخصیت کو فرشتہ اور حیوان سے الگ کرنے میں پیش پیش ہے یہ ایک ایسی لکیر ہے جو انسان کی اعلیٰ ظرفی کو میانہ روی میں ظاہر کرتی ہے ۔
یہ انسان ہی ہے جو اپنے انداز بیان سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیتا ہے ۔  عقل ودانش کےبند  دریچے کھول دیتا ہے حوصلہ، ہمت، جوش، نیکی، ‌بھلائی ،محبت، بھائی چارگی اور اخوت جیسے الفاظ کا استعمال کر کے لوگوں کو دوستی پیغام دیتا ہے جلتے ہوئے ذہنوں پر ٹھنڈے لفظوں کا چھڑکاؤ کرتا ہے۔
اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں ‌ا ن کا کام لوگوں کو ورغلانا اور ماحول کو تباہ وبرباد کرنا ہوتا ہے ۔ ان کے کلام سے دل شکنی ہوتی ہے
 زبان انسان کی ہوتی ہے مگر خیالات حیوان سے بھی بد تر شیطان کی طرح ایسے لوگ سماج کے دشمن ہوتے ہیں ۔
ایک کہاوت ہے کہ "  زبان پان بھی کھلواتا ہے  اور جوتے ‌ بھی  "
اس ضرب المثل کی مناسبت سے ایک چھوٹی سی کہانی پیش خدمت ہے
کسی گاؤں میں ایک غریب شخص تنہا رہتا تھا گا ؤں کے لوگ اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو دے دیا کرتے تھے۔ایک دن اسے کھیر کھانے کی خواہش ہوئی سوچا آج گوالے کے گھر جا کر اس سے بھیک میں کھیر مانگوں گا۔  وہ جانتا تھا کہ گوالن بڑی سخی ہے کبھی کبھی دودھ دہی بھی دے دیا کرتی ہے کھیر مانگنے پر ضرور بنا دے گی ۔
وہ گوالے کے گھر پہنچا صدا لگائی اور کھیر کی بھیک مانگی ۔گوالن نرم دل تھی اس نے کہا اچھا تم تھوڑی دیر بیٹھو میں کھیر بنا کر لا تی ہوں ۔ وہ شخص بیٹھ کر گھر کے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے چار گا ئیں اور چھ بھینسے دکھائی دی۔  اتنے میں گوالہ آگیا اس نے بیٹھنے کی وجہ پوچھی ۔پھر کہا اچھا ٹھیک ہے پک جائے تو لے لینا ۔
 غریب شخص نے گوالے سے کہا  کہ یہ سارے گاۓ بھینس آپ کے ہیں کیا ؟ 
 گوالے نے جواب دیا   ہاں بھئی ہمارے ہی ہیں یہی ہماری روزی روٹی کا ذریعہ ہے ۔
غریب شخص نے پھر کہا کہ اگر آپ کی گائیں اور بھینسوں کو  کوئی بیماری لگ گئی اور ایک ایک کرکے سب مر گئے تو آپ کا کیا ہوگا ؟؟
یہ سنتے ہی گوالہ طیش میں آ گیا اس نے اپنی جوتی اٹھائی اور اس شخص کو مارتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا ۔
آواز سن کر گوالن دوڑی اور آس پاس کے لوگ بھی گھروں سے نکل آئے ۔
گوالہ غصے سے لال پیلا ہو کر کہہ رہا تھا کہ تم اس کی پسند سے کھیر بنا رہی تھی اور وہ ہماری روزی روٹی کے ذریعہ کے لئے ہی برا سوچ رہا تھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
اس کی  سوچ اور زبان کی ادائیگی نے اسے ‌کھیر کی بجائے جوتے کھلاۓ ۔
اس لیۓ سوچ سمجھ کر لفظوں کا انتخاب کرنا چاہیۓ  غیر مہذب اور غیر مناسب لفظوں سے گریز کرنا چاہیۓ۔۔۔
لفظوں کے خوبصورت انتخاب سے کلام میں  مٹھاس اور دلکشی پیدا ہوتی ہے ۔

✍️....🍁سیدہ سعدیہ فتح🍁 

   16
5 Comments

Rahman

18-Jul-2022 09:21 PM

👌👌👌

Reply

नंदिता राय

18-Jul-2022 09:04 PM

👏👌

Reply

Asha Manhas

18-Jul-2022 09:02 PM

واہ واہ کیا بات ہے بہت خوبصورت لکھا گیا ہے 👌👌👌🥰🥰

Reply