Adeeba Riyaz

Add To collaction

غزل

کہ ہم تو غم کے مارے ہے 

ہمیں خوشیاں راس نہیں آتی 

ہم نے کبھی تمنا ہی نہیں کی مسرت کی
شاید اسی لئے خوشیاں میرے پاس نہیں آتی 

کہ میں اس دنیا میں آیا بھی تو روتے روتے
جب گیا سب کو رلا کے گیا ہوں 

پوچھا مجھ سے کسی نے کیا مرنا ضروری تھا
میں نے بھی کہہ دیا جسم یہی ہے بس روح کو سلا کے گیا ہوں 

جس آئینہ میں عکس میری معصومیت کا دکھتا ہو 
اپنی اس بے وقوفی کے سبب وہ آئینہ ہی توڑ دوں گا 

کہ اے زندگی میں پہلے سے ہی ستایا گیا ہوں نہ ستا مجھے
گر میں تنگ آگیا تو جینا ہی چھوڑ دور گا 

کہ نہیں آتی مجھے بے وفائی کرنی دوستوں سے
اُنکی ہاں میں میں اکثر ہاں ملایا کرتا ہوں 

کہ دنیا کی تلخیاں دیکھ کر بڑا بڑا رونا آتا ہے 
اپنی داستانوں میں میں اکثر ياروں کو رلایا کرتا ہوں 

کہ رات مجھے تاریکی کے باوجود بھی روشن لگتی ہے
دن میں سورج کی روشنی بھی اندھیری لگتی ہے 

کہ رات کو دیر سے سونا عادت ہے میری
وسط رات کو اُٹھ کر شام مجھے سویری لگتی ہے 

کہ وہ کرے گا تجھے  بے حد بیزار دنیا سے ” وہ خدا ہے“
تجھے تجھ سے ہی بیزار کر کے تجھے تجھ ہی سے محبت کرائیگا 

تو جب جب سمجھنے لگے گا خود کو بادشاہ
تجھے توڑ کر تیری عاجزی کا احساس دلائیگا










   16
11 Comments

Angela

09-Oct-2021 10:07 AM

Good

Reply

prashant pandey

12-Sep-2021 01:28 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

08-Sep-2021 03:57 PM

💜💜💜💜

Reply