غزل
کہ ہم تو غم کے مارے ہے
ہمیں خوشیاں راس نہیں آتی
ہم نے کبھی تمنا ہی نہیں کی مسرت کی
شاید اسی لئے خوشیاں میرے پاس نہیں آتی
کہ میں اس دنیا میں آیا بھی تو روتے روتے
جب گیا سب کو رلا کے گیا ہوں
پوچھا مجھ سے کسی نے کیا مرنا ضروری تھا
میں نے بھی کہہ دیا جسم یہی ہے بس روح کو سلا کے گیا ہوں
جس آئینہ میں عکس میری معصومیت کا دکھتا ہو
اپنی اس بے وقوفی کے سبب وہ آئینہ ہی توڑ دوں گا
کہ اے زندگی میں پہلے سے ہی ستایا گیا ہوں نہ ستا مجھے
گر میں تنگ آگیا تو جینا ہی چھوڑ دور گا
کہ نہیں آتی مجھے بے وفائی کرنی دوستوں سے
اُنکی ہاں میں میں اکثر ہاں ملایا کرتا ہوں
کہ دنیا کی تلخیاں دیکھ کر بڑا بڑا رونا آتا ہے
اپنی داستانوں میں میں اکثر ياروں کو رلایا کرتا ہوں
کہ رات مجھے تاریکی کے باوجود بھی روشن لگتی ہے
دن میں سورج کی روشنی بھی اندھیری لگتی ہے
کہ رات کو دیر سے سونا عادت ہے میری
وسط رات کو اُٹھ کر شام مجھے سویری لگتی ہے
کہ وہ کرے گا تجھے بے حد بیزار دنیا سے ” وہ خدا ہے“
تجھے تجھ سے ہی بیزار کر کے تجھے تجھ ہی سے محبت کرائیگا
تو جب جب سمجھنے لگے گا خود کو بادشاہ
تجھے توڑ کر تیری عاجزی کا احساس دلائیگا
Angela
09-Oct-2021 10:07 AM
Good
Reply
prashant pandey
12-Sep-2021 01:28 AM
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
Reply
Rakhi mishra
08-Sep-2021 03:57 PM
💜💜💜💜
Reply