Add To collaction

غزل

کب صبح سے شام ہو گئ ہے 
اب زندگی تمام ہو گئ ہے 

پہلے صرف میرے بال سفید ہوا کرتے تھے 
اب تو یہ رسم عام ہو گئی ہے 

یوں ہواؤں سے الجھنا بھی تھا مجھے 
اب کشتی سمندر کے نام ہو گئی ہے 

یہ کس کا لہو سڑکوں پہ بہہ رہا ہے 
اب خون سے سستی جام ہو گئی ہے 

سنگسار ہونا ہی پڑے گا اب عاشقوں کو
خطائے عشق جو سرِ عام ہو گئی ہے 

لوگ پھرتے رہتے  تھے خدا بن کر 
شکر ہے یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے 

کل سے انکو دیکھ کر بیٹھے نہ رہنا 
آج ہم پہ فرض سلام ہو گئی ہے

- م ز م ل 

   14
11 Comments

Angela

09-Oct-2021 10:07 AM

👌

Reply

prashant pandey

12-Sep-2021 01:31 AM

👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

08-Sep-2021 03:46 PM

💜💜💜💜💜

Reply